Wajood e Zan
وجودِ زن
میں وہ وجود کہ جس کا آنا بہت کم خوش نصیبوں کے لیے باعثِ مسرت رہا۔ اکثر جب میں نے دنیا میں قدم رکھا تو میرا واسطہ بجھے ہوئے چہروں سے پڑا۔ بد نصیب گھرانے میں پیدا ہو کر جیسے تیسے پھر میں بڑی ہونے لگی۔ میرے بعد آنے والی ہر تکلیف اور مصیبت نے مجھے منحوس ٹھہرایا۔
یعنی میرے ماتھے پر سب سے پہلا زیور نحوست کا سجایا گیا۔ اپنے ماتھے پر نحوست کا داغ سجائے کہیں تعلیم کے لیے بھیجا گیا اور کہیں روکا گیا کہ تعلیم مجھے سرکش بنا دے گی۔ دن گزرتے گئے۔ جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اور میرے وجود پر ایک اور زیور مسلط کر دیا۔ نحوست کے داغ کے ساتھ اب میں خود سے جڑے رشتوں کی عزت و غیرت کا ہار گلے میں لٹکائے پھرتی تھی۔
اس ہار کے بوجھ سے میری گردن ڈھلکی دکھائی دیتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ مجھے 'اچھی لڑکی' کی علامت کے طور پر کئی زنجیریں تحفے میں ملیں۔ میرے آقا کی عطا کردہ یہ زنجیریں ہر آن میرے دماغ میں کچوکے لگاتیں کہ سانس کیسے لینا ہے، کیسے ہنسنا یا رونا ہے، کیسے پہننا اوڑھنا، چلنا اور رہنا ہے؟ آتے جاتے میرے آقا کے قبیلے کے لوگ ستائیں تو خاموش رہنا ہے کہ اچھی لڑکی آواز نکالے تو بدچلن کہلاتی ہے، اور عزت خاک ہو جاتی ہے۔
پہلے پہل تو مجھے ان سب چیزوں سے گھٹن ہوتی تھی، پھر دھیرے دھیرے مجھے اپنی زنجیروں سے محبت ہو گئی۔ اب میں ان زنجیروں کو اپنے بدن پر پا کر کے فخر محسوس کرنے لگی۔ ایک دن میں گھر لوٹی تو عجب اہتمام تھا۔ مجھے سجا کر مہمان خانے میں لےجایا گیا جہاں کچھ تجزیہ نگاروں کی سی گہری نگاہیں میرا معائنہ کرنے لگیں۔ کھانے کے لوازمات پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے میرے وجود کی ساری خامیوں پر تبصرے کیے گئے۔
ان کے جانے کے بعد میرے گھر کا ماحول بجھا بجھا تھا۔ پھر جانے کتنی بار یہ سلسلہ دہرایا گیا۔ جب بھی کچھ لوگ میرا جائزہ لینے آتے تو لین دین کی باتیں ہوتیں، سامان کی لمبی لمبی فہرستیں میرے ماں باپ کو پکڑائی جاتیں۔ سودا بگڑ جاتا تو میں پھر سے منحوس ٹھہرتی۔ پھر ایک دن سودا بن گیا۔ جس کے کچھ دنوں بعد مجھے قرض کے پیسوں سے خریدے گئے سامان سمیت سجا کر نئے گھر میں بھیج دیا گیا۔
نیا گھر گویا ایک نئی دنیا تھی۔ جو میری پہلی دنیا سے زیادہ گھٹن زدہ تھی۔ از سرِ نو مجھے سُدھایا گیا اور گھر میں رہنے کے قوانین و دستور سکھائے گئے۔ مجھے خبردار کیا گیا میرے جیسا کوئی نیا وجود اس گھر میں نہیں چاہیئے۔ مگر میں ٹھہری ازل کی منحوس تو پھر بیٹی پیدا کر لی۔
اب میں دوہری اذیت سے دوچار اپنی اور اپنے جیسی دوسری عورتوں کی تقدیر کی چکی میں اپنی بیٹی کو پستے دیکھ رہی ہوں۔ میرے حوصلوں نے خود سہہ تو لیا مگر اب دل ہی دل میں ایک اور وجودِ زن کو میں اس چکی میں پسنے نہ دینے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔