Technology Ka Asar, Insani Kamzori Aur Machino Ki Mohtaji
ٹیکنالوجی کا اثر، انسانی کمزوری اور مشینوں کی محتاجی
اگر ہم آج سے سو سال پہلے کی بات کریں تو انسان کی بنائی گئی ہر چیز یا مشین انسان کی محتاج ہوتی تھی۔ انسان کے بغیر وہ مشین ناکارہ ہوتی تھی، اگر مشین موجود نہ بھی ہو تو انسان وہ کام خود کرنے کے قابل ہوتا تھا۔ مگر آج کل کے دور میں انسان کی بنائی گئی مشین طاقتور اور انسان کمزور ہے۔ اور انسان مشینوں کا محتاج ہے۔ مشین خراب یا موجود نہ ہونے کے صورت میں انسان کا وہ کام ادھورا ہے۔
انسان میں اب وہ طاقت اور ذہانت نہ رہی کہ مشین کے غیر موجودگی میں وہ اس مشین کا کام خود کرے، جس کے نتیجے میں انسان جسمانی کمزوری کیساتھ دماغی کمزوری کا بھی شکار ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ وہ سارے کام جو آج مشین سے کرواتے ہیں، خود کرتے تھے۔ جس سے اُن کی جسمانی ورزش ہوتی تھی اور وہ تندرست اور توانا رہتے تھے۔ مگر آج کل روزمرہ کے کام سے لے کر کاروبار تک، سب کام ایک جگہ بیٹھ کر کمپیوٹر کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ انسان کی جسمانی ورزش نہ ہونے کی وجہ سے ہر دوسرہ بندہ کمر درد اور جوڑوں کے درد کا شکار ہے۔
مگر المیہ یہ ہے، کہ کمر درد کا علاج یا ورزش کرنے کے بجائے، ایسے گیجٹس اور مساج مشین بنائے گئے ہیں، کہ جس سے وقتاً سکون مل جاتا ہے جیسے کہ نشے سے ہوتا ہے مگر علاج نہیں۔ پہلے زمانے کی عورتیں گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں، جس سے اُن کی جسمانی ورزش ہوتی تھی۔ مگر آج کل گھر کا کام بھی مشین کرتی ہے، اور کھانہ آن لائن آرڈر ہوتا ہے۔ اور عورتیں فون استعمال کرنے میں مصروف رہتی ہیں، یا سارا دن سوچتی رہتی ہے، جسکی وجہ سے بی پی اور ڈپریشن کی مریض ہو جاتی ہیں۔
تعلیم کے میدان میں دیکھیں تو چیٹ جی پی ٹی نے طلباء و طالبات کے دماغ کو سوچنے اور غور و فکر کرنے سے محروم کر دیا۔ بس جو چیز چاہیے، چیٹ جی پی ٹی کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ آپ اس کے مدد سے پوری کتاب لکھ سکتے ہیں، جو پہلے لوگ سالوں کا وقت لگا کر لکھتے تھے۔ زراعت کے میدان میں دیکھیں تو بیج ہائبریڈ ہے اور کاشت اور کٹائی مشین سے ہوتی ہے۔ سارے پھل اور سبزیاں ہائبریڈ ہیں جو دیکھنے میں خوبصورت اور ذائقہ میں لذیذ ہیں، مگر ان میں وہ وٹامنز، پروٹینز، جو اصل سبزیوں میں پائی جاتی ہے، نہ ہونے کے برابر ہے۔
پہلے زمانے میں کسان پھل سبزیوں کے بیج ذخیرہ کرکے دوبارہ کاشت کیلئے استعمال کرتے تھے، مگر آجکل تیار ہائبریڈ بیج ملتے ہیں، جسکو اُگانے سے اسکے بیج دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتے۔ کسان اُس کمپنی کا، جو اسے بیج فراہم کرتا ہے، محتاج رہتا ہے۔ اگر ہائبریڈ بیج ملنا بند ہو جائے تو کسان کاشتکاری نہیں کر سکتا۔ کیمیائی خوراک نے نہ صرف انسانوں بلکہ جانورں کی زندگی اور صحت کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ انسان اپنے پالتو جانوروں کو ہائبریڈ فیڈ اور گھاس دے رہے ہیں، جس سے وہ صحیح نشوونما نہیں کرتے، اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق موبائل سگنلز کیوجہ سے پرندے ختم ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینیر، کسان ہر شعبہ کے لوگوں کا 70 سے 80 فیصد کام مشین کر رہی ہے۔ اگر مشین دستیاب نہ ہو تو ڈاکٹر ڈاکٹر نہیں اور انجینئر انجینئر نہیں رہتا۔ اب تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے مصنوعی ماڈلز اور اینکر بھی بنا دئیے گئے ہیں۔ جو فلم 3-4 سالوں میں 200-300 لوگوں کی مدد سے مختلف مُلکوں کا سفر طے کرکے بنتی تھی، اب وہ ایک کمرے میں کچھ مہینوں میں بن جاتی ہے۔
اگر آپ دیکھیں تو آج کی دنیا میں آپ کو انسان کم اور مشین زیادہ نظر آتی ہوگی۔ اس دنیا میں آجکل مشینوں کا دور ہے۔ ہم نے اپنی زندگی اور دنیا مشین کے حوالے کرکے خود ایک اقلیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر آجکل کے دور میں مشینوں اور ٹیکنالوجی پر قبضہ کوئی کر لے تو ساری دنیا کو غلام بنا سکتا ہے۔ پھل اور سبزیوں سے وٹامنز اور پروٹینز ختم ہو رہے ہیں۔ آنے والے وقت میں انسانوں کو شدید جسمانی کمزوری لاحق ہوگی۔ پروٹینز اور وٹامنز صرف دوائیوں کی شکل میں دستیاب ہونگی جو کافی مہنگی ہوں گی۔
اسکا حل یہ ہے کہ ہر بندہ خود کاشتکاری کرے اور قدرتی بیج محفوظ کرے۔ برائیلر مرغی نہیں بلکہ دیسی مرغی پالیں اور اسکی نسل کی افزائش کریں۔ قدرتی اشیاء کھانے سے طاقت آتی ہے۔ قدرتی گھاس، گائے، بھینس کو کھلائیں گے تو اسکا گوشت اور دودھ بھی پروٹینز سے بھرپور ہوگا۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ گھر کے سارے کام خود کریں۔ اسی طرح مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ ذیادہ کام خود کریں اور تھوڑا مشین سے کریں۔ بچوں کو بھی دیسی خوراک کھلائیں، مصنوعی اور کیمیائی نہیں۔ اپنے سٹوڈنٹس کو بیچلر لیول تک چیٹ جی پی ٹی ہرگز استعمال نہ کرنے دیں، تاکہ وہ اپنے دماغ کا ذیادہ استعمال کریں۔