Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hanif Ahmad Khan
  4. Istehkam e Pakistan Ke Liye Zaroori Hai

Istehkam e Pakistan Ke Liye Zaroori Hai

استحکامِ پاکِستان کیلئے ضروری ہے

آجکل ایک بہت بڑی خبر جو گھوم رہی ہے، وہ مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان کے اتحاد کے بارے میں ہے۔ مولانا اور خان دونوں پاکستانی اور مسلمان ہیں، جبکہ دو بڑی سیاسی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور پاکستانی تحریک انصاف کے رہنما ہیں۔

سیاست کے میدان میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جماعتیں اتحاد کرتی ہیں، کیونکہ بنیادی طور پر ہر پاکستانی سیاسی جماعت کے منشور میں پاکستان کی بقاء اور عوام کی خدمت شامل ہوتا ہے، تو اس مقصد کیلئے اگر دو پارٹیاں آپس میں اتحاد کر لیں تو کوئی بُری بات نہیں۔

پھر پاکستان تحریک انصاف اور جمیعت علماء اسلام پاکستان کی دو بڑی جماعتیں ہیں، جن کے رہنما کے درمیان 2013 سے شدید اختلافات ہیں۔ جو صحیح نہیں ہے، اس شدید اختلاف کیوجہ سے ہمیشہ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔

آخر ان دو پارٹیوں کے درمیان اتنا شدید اختلاف کیوں ہے؟ عمران خان نے 2005 میں مولانا فضل الرحمٰن اور قاضی حسین احمد صاحب کیساتھ ہاتھ ملا کر جنرل مشرف کے پاک امریکہ اتحادیت کی مخالفت کی تھی۔ 6-8 سال پہلے کی خان کی نیشنل اسمبلی کی تقریر اب بھی موجود ہے، جس میں خان نے کہا تھا، کہ پاکستان کی ترقی کیلئے ہمیں ایک ہونا چاہئے، اور یہ بھی کہا تھا کہ میرے اور مولانا کے شدید اختلافات ہیں، مگر پاکستان کی امن اور خوشحالی کے خاطر میں مولانا صاحب کے پاس بھی جانے کے لیے تیار ہوں۔

عمران خان 1952 میں لاہور میں جبکہ مولانا 1953 میں لکی مروت میں پیدا ہوئے۔ خان مولانا سے عمر میں 1 سال بڑے ہیں۔ مولانا نے سیاسی کیریئر 1980 میں 27 سال میں شروع کیا۔ جب وہ جے یو آئی کے جنرل سیکرٹری بنے، اور 1988 میں نیشنل اسمبلی کی سیٹ جیت کر اسمبلی میں آئے۔ جبکہ عمران خان کو 1987 میں جنرل ضیاء الحق اور بعد میں نواز شریف نے بھی پیش کی، لیکن خان نے انکار کر دیا تھا۔ 1993 کے نگران حکومت میں خان سیر و سیاحت کے سفیر منتخب ہوئے، اور 3 مہینہ تک عہدے پرفائز رہے۔

1996 میں اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور 1996 میں انتخابات لڑی، لیکن کوئی سیٹ نہیں جیت سکے، جبکہ 2002 کے جرنل انتخابات میں خان این اے کی سیٹ جیت گئے اور پھر 2014 میں انتخابات میں حصہ لے کر خیبر پختون خواہ میں حکومت بنائی۔

مولانا 1988 سے لیکر 2013 تک ہر حکومت کا حصہ رہے اور بہت اہم عہدوں پر فائز رہے، جس میں کچھ اہم عہدے شامل ہیں۔ جیسے کہ "خارجی امور کمیٹی کے چیئرمین" اور "کشمیر کمیٹی کے چیئرمین" کے عہدے شامل ہیں۔

مولانا نے ماسٹرز کی ڈگری جامع الازھر مصر سے حاصل کی۔ مولانا اسلامی تعلیمات کے ماہر اور حافظ قرآن ہیں، جبکہ پاکستانی بارہ لاکھ سے زیادہ علماء انکو اپنا استاد مانتے ہیں۔ مولانا تقریباً 5 کتابیں لکھ چکے ہیں۔

دوسری جانب جتنا عرصہ عمران خان اگر حکومت کا حصہ نہ رہے، تو بھی انہوں نے مختلف کام کیلئے، نہ صرف ورلڈ کپ جیتا، بلکہ 2014 تک انسانی فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف رہے۔ وہ یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ پاکستان سمیت دوسرے ممالک، لندن سمیت، سماجی کاموں میں مصروف رہے، 2008 میں نمل کالج بنایا۔ اس کے علاوہ ڈی آئی خان اور ڈی جی خان میں سیلاب زدہ لوگوں کو ریلیف فراہم کیا۔ اور سو لر اینرجی اسٹیشنز بنا کر دیئے۔

9 سال تک یونیورسٹی آف بریڈفورڈ انگلینڈ کے وائس چانسلر رہے، اور کینسر ہسپتال شوکت خانم بنایا۔ خان 20 سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں، ان دونوں رہنماؤں کے مابین اختلاف پر، دونوں رہنماؤں نے ہمیشہ عوام اور اسلام دشمن پالیسیوں کے خلاف اور امریکہ کے پاکستان خلاف پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ مگر اختلافات شدت تب سے اختیار کر گئی، جب مولانا نے خان پر یہودی ایجنٹ ہونے کا فتویٰ لگایا۔ خان کے گولڈ اسمتھ خاندان میں شادی کرنے کی بنیاد پر، جبکہ خان کا وہ رشتہ ختم ہوئے 20 سال ہوگئے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب خان مولانا پر مذہب کے نام پر سیاست، ہر سیاست کا حصہ رہنے، اور ڈیزل کی چوری کا الزام لگاتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے کہ مولانا پر ڈیزل کا الزام خواجہ آصف نے لگایا ہے، میں نے نہیں۔ حالانکہ ڈیزل کا یہ جرم ابھی تک کوئی ثابت نہ کر سکا مولانا پر اور نہ ہی اس میں کوئی حقیقت ہے۔

جبکہ سینیئر جرنلسٹ حامد میر کے مطابق مولانا کو ڈیزل کا تعنہ نواز شریف نے 1998 میں جب شریف کی دوبارہ حکومت بنی، تو انہوں نے دیا تھا۔ کیونکہ مولانا صاحب شریف کی حکومت کے خلاف تھے۔

جبکہ چوہدری غلام حسین کے مطابق جب افغانستان اور روس کی جنگ تھی، تو اس وقت افغانستان میں قحط کی صورتحال تھی، پاکستان کو باہر ملکوں سے جو ڈیزل اور پٹرول ملتا تھا، تو اس وقت پاکستان میں ڈیزل بلیک میں بکتا تھا۔ تو پاکستان سے پاکستانیوں اور افغانیوں کو حکومت کی جانب سے ڈیزل کے پرمٹ ملتے تھیں، جس سے وہ افغانستان کو ڈیزل بھیجتے تھیں، اور اس میں منافع کماتے تھیں۔ یہ ایک قسم کا کاروبار لوگ کرتے تھیں اُس وقت۔

2002 میں جب جنرل مشرف کے دور میں انتخابات ہوئے تو وزیراعظم کے کرسی کے تین لوگ امیدوار تھیں، جس میں مولانا فضل الرحمن شاہ محمود قریشی اور میر ظفر اللہ جمالی شامل تھیں۔ عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا تھا، وزیراعظم بننے کیلئے۔ عمران خان اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے واحد ایم این اے تھے۔ مولانا کے ساتھ پاکستان کے سارے سُنی علماء اور انکے شاگرد ہیں، اور ایسے مولانا کو چاہتے ہیں، کہ جان بھی دینے کو تیار رہتے ہیں۔

دوسری جانب خان کے ساتھ اکثریت زیادہ تعلیم یافتہ اور کاروباری لوگ اور نوجوان ہیں۔ دونوں رہنماؤں کے زیادہ حامی خیبر پختونخوا کے پٹھان ہیں، اسلئے آئے روز پارٹی ورکرز کے درمیان اختلافات کیوجہ سے بہت شدید افسوسناک واقعات سامنے آتے ہیں۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے، کہ دو مذہبوں کے درمیان اختلاف نے قوموں کو اتنا نقصان نہیں دیا، جتنا کہ فرقہ واریت نے دیا۔ مسلمانوں کو اس وجہ سے بہت سارے ممالک میں نقصان ہوا۔ آج بھی فرقہ واریت کیوجہ سے بہت اسلامی ممالک برباد کئے جا چکے ہیں، ایک سازش کے ذریعے۔

مولانا اور خان کے اتحاد کو پاکستان کے امن اور استحکام کے لئے اس قدر ضرورت ہے، جیسا کہ ایک ملک کو جنگ کے وقت اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے مجھے مولانا اور خان کے درمیان دوری اور اختلاف کی پیچھے کوئی بیرونی سازش لگتی ہے۔

دونوں کے ساتھ پاکستان کے ذہین ترین نوجوان ہیں۔ ایک طرف اسلامی تعلیمات کے ماہر تو دوسری جانب دنیاوی تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ماہر۔ تو دونوں کا اتحاد اسلام اور پاکستان کے لئے کتنا فائدہ مند ہو سکتا ہے، آپ خود سوچیں۔ اگر دونوں لیڈرز بیٹھ کر اپنے تحفظات دور کریں، تو ایک انقلاب آ سکتا ہے، اور وہ ہوگا امن اور محبت کا انقلاب۔ جب تک یہ دونوں لیڈرز آپس میں نہیں بیٹھ جاتے تب تک ہم لوگ اس بات کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کریں، اور ان لیڈرز کو اس طرف لانے کی کوشش کریں۔

ایک سچا پاکستانی کس طرح ان دونوں کے اتحاد کی مخالفت کریگا اور کیوں؟ ہم سب کا نظریہ، ملک اور دین ایک ہے، پھر آپس میں اتنا شدید اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ جس مقصد کیلئے ہم الگ الگ جدوجہد کر رہے ہیں تو اکٹھے مل کر کیوں نہیں کر سکتے؟

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad