Atharvi Tarmeem Kya Hai?
اٹھارویں ترمیم کیا ہے؟
پاکستان کے آئین میں شامل اٹھارویں ترمیم کیا ہے، جس کو انگلش میں 18th amendment بھی کہا جاتا ہے؟ سب سے پہلے ہم کو ترمیم لفظ سمجھنا ہوگا، آئین میں کی جانے والی کوئی بھی تبدیلی اردو لغت کو دیکھتے ہوئے اس کے لیے لفظ ترمیم استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کوئی تبدیلی کی جانا۔
پاکستان کے آئین میں آج تک لگ بھگ 21 ترامیم ہوئی، اور 21 ویں ترمیم کے ذریعے فاٹا کو خیبر پختون خواہ میں ضم کیا گیا۔ ہم بات کریں گے اب اٹھارویں ترمیم کی، کہ اٹھارویں ترمیم میں کیا ہوا تھا۔ پاکستان کا آئین جو 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا، سال 2010 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو آصف علی زرداری جو پاکستان کے صدر تھے، انہوں نے کچھ ترامیم کرانا چاہے۔ ترمیم کی مختلف شقیں ہیں میں باری باری آپ کو سمجھاتا ہوں۔ سب سے بڑی اور اہم ترمیم جو ہے، وہ یہ ہے کہ وفاق پہلے طاقت کا مرکز تھا ساری طاقت اسلام اباد میں ہوا کرتی تھی صدر کے پاس پورے پاورز ہوتی تھیں۔
ان سے وہ طاقت لے کر صوبوں کو دے دی گئی، اور صوبوں کے وزیر اعلی کو با اختیار بنایا گیا۔ کیسے؟ وہ ایسے کہ پورا پاکستان جتنا بھی کماتا ہے تو وفاق کی طرف سے پوری صوبوں کو بھی اس کا حصہ ملے گا۔ یعنی ایک گھر میں ایک والد جتنا بھی کماتا ہے وہ اپنے چاروں بیٹوں میں تقسیم کرے گا برابر۔
سب سے زیادہ اس بات کا کریڈٹ یعنی اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی لیتی ہے، اور صدر پاکستان جو اس وقت آصف علی زرداری وہ یہی کہتا ہے کہ میں بطور صدر ہوکر بھی میں نے صدر کے پاورز کو محدود کیا۔ اور یہ بات بالکل ٹھیک بھی ہے۔
یہاں پر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا، کہ صدر زیادہ طاقتور ہوتا ہے یا وزیراعظم ہمارا جو 1973 کا آئین ہے وہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ پاکستان ایک پارلیمنٹری سٹیٹ ہے۔ اور جب ایک ملک پارلیمنٹری سٹیٹ ہوتا ہے، تو اس میں زیادہ پاور فل وزیراعظم ہوتا ہے۔ اور وزیراعظم چونکہ پارلیمنٹ کا ہیڈ ہوتا ہے، تو اس وجہ سے پارلیمنٹ ہی سپریم اور طاقتور ہوتی ہے۔ نہ کہ طاقت صدر کے پاس ہوگی، کیونکہ صدر تو پارلیمنٹ کا نمائندہ نہیں ہوتا۔
پاکستان کا نظام نیم صدارتی نظام تھا۔ جس کو اٹارویں ترمیم کے بعد پارلیمانی جمہوری نظام بنایا گیا۔ یعنی صدر سے اختیارات لے کر وزیراعظم کو دی گئی۔
صدارتی نظام کیسے بنا؟ یہ اس وجہ سے کیونکہ ماضی میں پاکستان پر حکومت کرنے والے کچھ صدر یہ نظام لاۓ تھے کہ صدر کو مضبوط اور با اختیار بنایا جائے۔ اس صدارتی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے اور صوبوں کو طاقت دینے کے لیے اٹھارویں ترمیم کرائی گئی۔
صرف یہی نہیں بلکہ اٹارویں ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخواہ کا پرانا نام جو کہ پہلے صوبہ سرحد تھا وہ تبدیل کرکے خیبر پختون خواہ بنایا گیا۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کی تحت یہ قانون بھی ختم کر دیا گیا کہ کوئی بندہ صرف تین بار پاکستان کا وزیر اعظم یا کسی صوبے کا وزیر اعلی بن سکتا ہے۔ اس کو ختم کرنے کے بعد اب کوئی بھی بندہ تین سے زیادہ دفعہ بھی وزیراعظم یا وزیر اعلی بن سکتا ہے۔ اور اہم شق یہ بھی ڈالی گئی کہ پاکستان کا آئین جو بھی توڑے گا وہ سنگین غداری کا مرتکب ہوگا۔
ایک یہ شک بھی موجود ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جو پورے پاکستان میں الیکشن کرواتا ہے اس کا انتخاب ساری پارٹیز کے ممبران اپنے باہمی مشاورت سے کرے گے اور پھر وہ انتخابات کروائے گا۔ اس کے علاوہ 5 سال سے لے کر 16 سال تک بچی بچیوں کے تعلیمی اخراجات حکومت پر ڈالے گئےکہ 16 سال تک کے بچوں کی تعلیم کا سارا خرچہ حکومت اٹھائے گی۔ اٹھارویں ترمیم میں اور بھی دیگر شق موجود ہیں، لیکن جو اہم تھیں انکا میں نے یہاں ذکر کیا صرف۔
کچھ عرصہ پہلے بھی صدارتی نظام کی بات ہو رہی تھی، کہ صدارتی نظام لایا جائے، لیکن کچھ پارٹیوں نے اس نظام کی مخالفت کی۔ جب صدارتی نظام کی بات ہوتی ہے تو ملک کی بڑی پارٹیاں اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں کیونکہ صدارتی نظام میں پاور صدر کے پاس ہوتی ہے، اور پھر صوبوں کے پاس وہ طاقت نہیں ہوتی صوبے خود مختار نہیں ہوتے۔
جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اکثریت سندھ میں ہے اور پنجاب میں اکثریت مسلم لیگ نون کے پاس ہے، تو وفاقی نظام ان کو سوٹ نہیں کرتا، کیونکہ اگر پورے ملک میں حکومت نہ بھی آۓ، تو کسی صوبے میں حکومت مل سکتی ہے اور صوبہ تو خود مختار ہوتا ہے تو وہ وہاں پر مزے سے وقت گزار سکتے ہیں۔
کیونکہ انکے پاس وزارتیں بھی ہوں گی اور خود مختاری بھی ہوں گی جو صدارتی نظام میں ممکن نہیں۔