Yaad
یاد
"آج تیری یاد نے رلا دیا"۔
پاکستان کے ایک نجی نیوز چینل سے رمضان کی پہلی سحری زمان پارک میں کیسی گزری، اس کے کچھ مناظر دکھائے گئے، ویڈیو کلپ میں دکھایا جا رہا ہے کہ عمران خان صاحب گھر سے باہر آئے، کارکنان سے ملے، سحری کے انتظامات کا خود جائزہ لیا، کارکنان عمران خان کی آمد سے بہت خوش ہوئے، ویڈیو کلپ دیکھتے ہوئے مجھے برجستہ محمد بلال عرف ظلے شاہ کی یاد آ گئی جو عمران خان کی جنونی محبت میں گرفتار تھا۔
وہ بلاشبہ دماغی لحاظ سے ہم جیسوں سے کچھ قدم پیچھے تھا مگر اس کی محبت اپنے لیڈر کے لیے بےلوث تھی اس محبت میں وہ مرنے کو بھی تیار تھا اور جیسا اس کا جنون تھا اسے موت بھی ویسی میسر آئی۔ آج بھی اگر وہ حیات ہوتا تو عمران خان آمد اور اس سے ملاقات کے بعد اس کی سحری مزید پرلطف ہو جاتی۔
عمران خان کی محبت میں کئی دیوانے جلسوں اور ریلیوں کے دوران شہید ہو جاتے ہیں مگر ظلے شاہ جیسی پذیرائی بہت کم دیوانوں کے حصے میں آئی۔ سوشل میڈیا اور نجی ٹی وی چینلز کے اینکرز کو دئیے گئے اسکے انٹرویوز، اس کی وفات کے بعد اکثر اوقات نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ وہ درویش صفت انسان زندہ رہتے ہوئے تو کسی بھی معاملے میں کامیاب نہیں ہو سکا مگر اس کی موت نے اسے پورے پاکستان میں مشہور کر دیا۔ بہت کم لوگوں کی قمست میں ایسی شہرت آتی ہے۔
اسکی موت کے فوراً بعد بھی اس کے جنون پہ میں کالم لکھنے کی خواہش مند تھی مگر وقت کی قلت کے باعث ایسا ممکن نہ ہو پایا مگر آج تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں نے اس شخص پہ لکھنا ضروری سمجھا، کیونکہ یہ وہ پاکستانی ہے جو قوم کی نااہلی اور پاکستان کی گندی سیاست کی بھینٹ چڑھا ہے۔ ہم اپنے بچوں خاص طور پہ لڑکوں کی تربیت میں کمی کر جاتے ہیں ان کے جنون کو خود ہوا دیتے ہیں انہیں باہر آنے جانے سے روکنے کی بجائے صرف اسں بات پہ مطمئن ہوتے ہیں کہ لڑکے ہیں خود اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، انہیں سیاست سے دور رکھنے کی بجائے خود ان سے سیاست پہ بحث کرتے ہیں۔
حالانکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سیاست کا کیا معیار ہے۔ ایسی سیاست سے لگاؤ ہمارے بچوں اور جوانوں کے لیے خطرناک ہے اسکے باوجود ہم اپنی سیاسی گفتگو میں انہیں شامل کرتے ہیں۔ ظلے شاہ کے والدین بھی اپنے بیٹے کی پسندیدگی کو جنون بننے سے روک سکتے تھے۔ بحیثیت والدین یہ ان کا فرض تھا مگر انہوں نے اپنے بیٹے پہ کسی طرح کی پابندی نہ لگائی۔ بقول ظلے شاہ "وہ عمران خان کو 1992 سے پسند کرتا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ پسندیدگی جنون بنتی گئی" 1992 سے 2022 بیس سال، کیا والدین کا فرض نہ تھا کہ بیٹے کی ذہنی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے شوق کو جنون نہ بننے دیتے؟
میں ظلے شاہ کی موت کو ایک حادثہ نہیں مانتی۔ یہ موت میرے لیے روز اول سے ایک قتل کے مترادف رہی ہے اور اس موت کا ذمے دار ہمارے معاشرے کا ہر شخص ہے، ہر وہ شخص جو باشعور ہے جو سمجھ بوجھ رکھتا ہے۔ ہمارا کام ہے اپنے بچوں، اپنے نوجوان کی ذہنی آبیاری کرنا، ہمارا کام ہے ان کے شوق کو ایک مناسب حد میں رکھنا، انہیں ترغیب اور سمجھ دینا، ان کے شوق کو جنون بننے سے روکنا، اور معاشرے میں ہو رہی بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھانا۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بولتے تب ہیں جب پانی سر سے گزر جاتا ہے ہمیں ہوش تب آتا ہے جب چڑیاں کھیت چگ کے اڑ چکی ہوتی ہیں اور اس وقت ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
پچھتر سالوں سے اس ملک میں یہ ہی ہوتا آ رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ آگے بھی یہ ہی ہوتا رہے گا۔ میرے قارئین شائد میرے امید کو ناامیدی کہیں گے مگر سچ یہ ہی ہے اور ایک سچ یہ بھی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کی تربیت سے بےپروا ہیں ہم کبھی توجہ نہیں دیتے کہ ہمارے بچے ہم سے منفرد بنیں، بلکہ ہم انہیں اپنے جیسا بنا کر بہت خوش ہوتے ہیں اور ہماری یہ خوشی نسلوں کی تباہی ہے۔