Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Waqt Ka Thappar

Waqt Ka Thappar

وقت کا تھپڑ

وقت انسان کے اچھا یا برا ہونے کی ضمانت ہے وقت کی طاقت دیکھیے یہ انسان کی اخلاقی قدریں متعین کرتا ہے اگر وقت اچھا ہو تو بد بھی اچھے، اگر یہ برا ہو جائے تو انسان کی ہر نیکی بدی میں بدل جاتی ہے کچھ ایسا ہی حال میں نے یاسمین کا بھی دیکھا۔

والدین کی پہلی اولاد، ا یک بہن اور تین بھائیوں سے بڑی، قبول صورت، ذہین، تعلیم یافتہ، والدین کم پڑھے لکھے تھے اور گھر کا ماحول بھی روایتی تھا، چوبیس سال میں بتیس سال کے ایک شخص سے شادی کروا کے اسے رخصت کر دیا گیا۔ شادی کے چھے ماہ بعد اولاد کی امید لگی مگر نویں مہینے کے پہلے ہفتے میں یعنی مقررہ وقت سے تین ہفتے پہلے جو اولاد پیدا ہوئی وہ ابنارمل تھی بچہ جسمانی طور پہ نامکمل تھا اس کی کمر کی ریڑھ کی ہڈی نہیں بنی تھی وہ چل نہیں سکتا تھا بچے کی اس معذوری کو یاسمین کی بدبختی اور اس کے گناہ گردانا گیا ہر کسی کا، بلکہ یہاں تک اسکی اپنی والدہ کا بھی یہ ہی کہنا تھا یاسمین اگر کوئی غلطی گناہ ہو گیا ہے تو اللہ توبہ کر، یہ بچہ گناہوں کی سزا ہے سسرال والوں سے بھی اچھی نہ جم پائی آخرکار وہ مکمل طور پہ بچے کی پرورش میں جٹ گئی۔

دین، دنیا، گھر، اپنے پرائے سب فراموش کر کے بس بچے کی دھن اس پہ سوار رہتی مگر ڈھائی سال پانچ ماہ کی عمر میں وہ بچہ ابدی نیند سو گیا۔ دوسری بار دو ماہ کا حمل ٹھہرا اور ضائع ہو گیا۔ اس کے بعد یاسمین کبھی ماں نہ بن سکی۔ وقت کو رینگتے آٹھ سال گزر گئے اور پھر شوہر کو بھی ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ ہارٹ اٹیک بھی آدھی رات کو، جس وقت کوئی اس حادثے کا گمان بھی نہ کر سکتا تھا اور اس موت کی ننانوے فیصد ذمےداری اس کے کندھوں پہ آ گری کہ شاید اس کے کسی جھگڑے یا تلخ بات کے باعث ایسا ہوا ہو گا۔ ورنہ ایک ٹھیک ٹھاک انسان کیسے سوتے میں مر گیا۔ اور ایک فیصد یہ کہا گیا مرحوم کی عمر ہی اتنی تھی۔

سسرال تو سسرال اس کے اپنے بہن بھائی بھی اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے اولاد نہ تھی سسرال والوں نے بھی نہ رکھا ناچار باپ اپنے ساتھ لے آیا مگر وہ بھی مجبوری میں کہ ابھی جوان ہے کہاں اسے دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دوں۔

وقت اس کے خلاف تھا کبھی اس کا سگا نہ بن سکا ماں ایک روایتی بوسیدہ معاشرے کی پیروکار تھی اس کے لیے بیٹی کا وجود تو پہلے پرایا تھا اب یہ پرایا ڈھول گلے میں آ کر دوبارہ لٹک گیا تھا وہ تو اسے گھر کا کوئی کمرہ دینے کو بھی راضی نہ تھی کہ کہیں اس کا مستقل ٹھکانہ نہ بن جائے چھوٹا سا گھر تھا جو تین بیٹوں کے ورثے میں آنا تھا اور وہ بیٹوں کی محبت میں واری صدقے جانے والی ماں تھی بہن کے لیے بھی وہ ایک بوجھ ہی تھی بھلا اس سے کسی بہن یا بھائی کو کیسا فائدہ؟ اس کے لیے تو خود یہ دنیا تنگ تھی نہ کہیں کوئی ٹھکانہ نہ آسرا۔ جو تھوڑا بہت سکول میں نوکری کر کے کماتی تھی وہ خود کے لیے بس تھا کسی کو خوش کیسے کرتی؟

دوسری شادی کا بھی کوئی سبب نہ بنا آخر بیوگی کے چھے سال تک وہ دو بار خودکشی کی مرتکب ہو چکی۔ ایک بار گھر سے باہر کسی گاڑی کے نیچے آنے کا ارادہ کر کے نکلی مگر حوصلے اور جرات کے فقدان کے باعث دوبارہ گھر لوٹ گئی دوسری بار خواب آور گولیاں کھا لیں مگر وقت کی بے اعتنائی تو دیکھیے اسے سانس بھی اپنی رضا سے بند کرنے کی اجازت نہ ملی۔

یہ ہے وقعت، ہمارے معاشرے میں ایک عورت کی، پیدائش سے جوانی تک ایک پرائی امانت کے طور پہ باپ کے گھر میں رہتی تھی پھر شادی کرا کے آگے بھیج دی جاتی ہے اگر مقدر کی دھنی ہو تو راج کرتی ہے اگر بدبخت ہو تو خوار ہوتی ہے بیوہ، مطلقہ، بانجھ کے لیے ہمارے معاشرے میں بالکل جگہ نہیں ہے۔ سب سے مضبوط سہارا باپ، اور زمین پہ خدا کا دوسرا روپ ماں، یہ بھی اس کے اپنے نہیں بنتے۔

جس گھر کے لیے یاسمین آنکھ کا کانٹا تھی انہی گھر والوں کے لیے اس کی اپنی بہن آنکھ کا تارا تھی فرق بس یہ تھا وہ سہاگن تھی اور یاسیمن بیوہ۔ دونوں کے اچھا اور برا ہونے کا تعین وقت نے کیا تھا حالانکہ دونوں بہنیں تھیں ایک ہی باپ اور ماں کی اولاد۔

میں بہت حیران ہوتی ہوں حقوق بردار تنظیمیوں پہ، خواتین کے لیے پلے کارڈز پکڑے لبرل اداروں پہ، عورت کی عزت و ناموس کا دعویٰ کرنے والی مذہبی جماعتوں پہ۔ ان عورتوں کے لیے کیوں سمینار نہیں ہوتے، سڑکوں پہ دھرنے نہیں دئیے جاتے، تقریریں نہیں ہوتیں، شوشل میڈیا پہ پوسٹیں نہیں لگتیں۔

حقیقت میں تحفظ کی مستحق تو یہ عورتیں ہیں۔

Check Also

Jab Aik Aurat Muhabbat Karti Hai

By Mahmood Fiaz