Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Urdu Meri Zuban

Urdu Meri Zuban

اردو میری زبان

جیسے کہ آپ سب میرے نام سے بخوبی واقف ہیں۔ مزید چند تحریروں کے پوسٹ کرنے سے اندازہ بھی لگا چکے ہوں گے کہ چند غلط ملط جملے بھی لکھ لیتی ہوں۔ اور بسا اوقات کچھ پلیٹ فارمز سے منعقد تحریری مقابلوں میں بھی حصہ لینا میرے مشاغلات میں سے ایک ہے۔ اس لیے چند لکھاریوں سے ہیلو ہائے بھی ہو جاتی ہے۔

ایک بار میں نے داستان پبلیشر کی جانب سے منعقد افسانہ نگاری مقابلے میں حصہ لیا۔ یہ مقابلہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں کروایا جا رہا تھا اردو افسانے میں، میری اول پوزیشن آئی، جبکہ انگریزی زبان میں تیسرے درجے پہ آنے والے ایک لکھاری کی جانب سے مبارکباد کا مسیج وصول ہوا، میں نے شکریہ کا جواب دیا۔ لکھاری چونکہ انگریزی میں لکھنے کا عادی تھا اسلیے ہماری تمام گفتگو انگلش میں ہی ہوئی۔ دو دن بعد اس لکھاری کی جانب سے مجھے ایک لنک موصول ہوا جس کا مقصد یہ تھا کہ مجھے انگلش میں بھی لکھنا چاہیے۔ میں نے معذرت کی اور کہا کہ میں نے انگلش میں کبھی نہیں لکھا نہ کبھی کوئی افسانہ نہ مضمون۔

جواب ملا حیرت ہے اگر آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ انگلش کو مشکل زبان سمجھیں گے اور اس میں طبع آزمائی نہیں کریں گے تو ہم بین الاقوامی سطح پہ اپنی بات کیسے سمجھا سکتے ہیں۔ انگلش میں لکھنے والوں کے لیے یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ اپنا مواد صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک اخبارات اور رسائل میں شائع کروا سکتے ہیں۔

بات درست ہے مگر میں اپنی مادری زبان میں لکھنا چاہتی ہوں مجھے اردو میں لکھ کر لطف آتا ہے میں نے جواب دینے کے لیے نرم لب و لہجہ اختیار کیا۔ مگر میرے جواب کے بعد لکھاری کاپیغام آیا "اچھی بات ہے مگر ایک مشورہ ہے اگر آپ انگلش میں لکھ سکتی ہیں تو ضرور کوشش کریں"۔

اگر لکھ سکتی ہیں تو۔۔ یہ لفظ مجھے عجیب لگے مطلب ان لفظوں کا کیا مفہوم۔ جو انگلش میں نہیں لکھتا وہ انگلش لکھ یا سمجھ نہیں سکتا۔ مگر میں نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا۔ اس کے بعد بھی بسا اوقات میری اس لکھاری سے بات ہوئی اور حسب معمول ان حضرت نے ہمیشہ انگریزی ہی میں میسج کیا۔

خیر یہ تو ایک بات تھی مگر ایم اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی کبھی دل ہی نہیں چاہا کہ مجھے انگریزی میں لکھنا چاہیے۔ میں نے انٹر سے گریجویشن تک اکنامکس پڑھی، مگر ایم اے کرنے کے لیے مضمون اردو چنا۔ حالانکہ میرے اس انتخاب کو بہت سوں نے موضوعِ تنقید بنایا کہ یہ کیا؟ اردو کا دائرہ کار کیا ہے؟ اکنامکس پڑھ کے بھی ایم اے اردو ہی کیوں؟ میں نے ہر بار یہ ہی جواب دیا اکنامکس گھر والوں نے زبردستی پڑھائی، مجھے اس مضمون میں ذرا برابر دلچسپی نہیں۔ مجھے اردو زبان و ادب سے دلی لگاؤ ہے مجھے اس زبان کی شائستگی و تہذیب اچھی لگتی ہے۔

اب چند دنوں سے میں تعلیم کی غرض سے بیرون ملک جانے کے متعلق سوچ رہی ہوں ایک دو جگہ یونیورسٹیز میں اپلائی بھی کیا۔ جرمنی میں مقیم ایک انڈین سے اس سلسلے میں میری بات ہوئی۔ میں نے کہا؛ ارے واہ آپ انڈین ہیں خوشی ہوئی میرے والد کو انڈینز بہت پسند ہیں دراصل میرے دادا، دادی کا پورا خاندان انڈیا میں مقیم تھا بس ہم یہاں آ گئے۔

محترم بولے؛ نہیں اب میں انڈین نہیں۔ جرمن ہوں میرے پاس جرمن شہریت ہے میں یہاں دس سال سے رہ رہا ہوں انڈیا اب میرا وطن نہیں۔ میں حیران ہوئی کوئی کہیں بیس سال بھی رہ لے، آبائی وطن تو اصل پہنچان ہوتی ہے میں کہیں بھی چلی جاؤں میری اصل پہنچان تو یہ ہے کہ میں پاکستان سے ہوں۔

خیر ایم اے اردو کا سن کے جرمن صاحب بولے، اردو کے متعلق تو مجھے نہ تو یہاں کوئی تعلیمی پروگرام کا پتہ ہے نہ جاب کا، کیونکہ یہاں اردو تو کوئی سمجھتا ہی نہیں۔ یہاں انگلش اور جرمن بولی جاتی ہے، آپ اپنی بی-اے والی ڈگری کے ذریعے اپلائی کریں اور ILets کے لیے بھی اپلائی کریں۔

میں نے جواب دیا کیونکہ ہم ضرورت مند ملک سے ہیں ترقی یافتہ مغربی ممالک ہمیں اپنے ملک میں آنے کی اجازت دیتے ہیں وظیفے کی سہولت فراہم کرتے ہیں اس لیے ہم مجبور ہیں کہ ان کی زبان پہ عبور حاصل کریں اگر ایسی تعلیمی و تکنیکی سہولیات ہم باہر کے ممالک کے لوگوں کو دیں تو ان پہ بھی لازم ہو کہ وہ اردو سیکھیں اور ہماری زبان کو عزت دیں ہم تو اپنے ہی تعلیمی اداروں میں اپنے ہی بچوں کو اُردو پڑھانے میں عار محسوس کرتے ہیں انگریزی تعلیمی اداروں پہ فخر کرتے ہیں تو باہر والوں سے کیا گلہ کریں۔

اب اتنی عوام میں چند مجھ جیسے چند پاگل ضرور ہوں گے، جو اکنامکس کو چھوڑ کر اردو میں ایم اے کریں انگلش کو چھوڑ کے اردو میں لکھتے ہوں تو شائد آنے والے سالوں میں کبھی نہ کبھی اردو کو بھی اس کا جائز حق مل ہی جائے۔

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq