U Turn (2)
یو ٹرن (2)
عمران نیازی صاحب ماضی میں ایک اچھے کھلاڑی رہ چکے ہیں اور ان کے متعلق تاریخ بتاتی ہے کہ بےحد ضدی کھلاڑی گزرے ہیں ملک پاکستان نے ان کی قیادت میں 1992 کا ورلڈ کپ جیتا۔ کرکٹ کے میدان میں 92 کے بعد اور پہلے پاکستان ایسی جیت کا سہرا اپنے سر نہ سجا سکا کھیل کے حوالے سے ہم عمران خان کا ایک تابناک ماضی دیکھتے ہیں اس کے بعد وہ کھیل کو چھوڑ کر سیاست کی جانب آگئے۔
یہ ان کا پہلا یو ٹرن تھا کھیل کو مکمل خیر آباد کہہ کر وہ سیاست کے ہو کے رہ گئے اکیس بائیس سال کے سیاسی کریئر میں قوم نے انھیں سال 2014 میں ایک نئے رنگ اور جوش وجذبے میں دیکھا اور بالآخر 2018 میں وہ الیکشن جیت بھی گئے 2014 تا 2018 کے دور میں بحیثیت اپوزیشن ان کے احتجاج اور جلسے مزید وزارت عظمیٰ تک پہنچنے تک کے معاملات پہ بحث کسی اور وقت پہ رکھتے ہیں مگر 2013 سے ہی انھوں نے شریف خاندان کا جینا دوبھر کر رکھا تھا بالآخر ان کے جلسے، دھرنے اور احتجاج رنگ لے آئے اور 2018 میں وزارت عظمیٰ کے حقدار پائے گئے۔
2013 سے بحیثیت اپوزیشن لیڈر اور اسکے بعد 2018 میں انتخابات جیتنے کے بعد عمران صاحب صرف ایک ہی گردان رٹتے ہوئے نظر آئے کہ پی ٹی آئی کے علاؤہ ملک کی باقی تمام پارٹیوں کے سربراہان چور ہیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی پہ بڑا کڑا وقت شروع ہو چکا تھا آئے روز کی عدالتوں کے دورے کرنے کی بجائے وہ اسپتال دوروں پہ چلے گئے مگر اسی اثنا میں عمران حکومت پہ کرونا مرض ایک عذاب کی صورت میں وارد ہوگیا گو کہ یہ ایک عالمی مسئلہ تھا مگر کہتے ہیں ناں بھوکے کو کسی اور کی بھوک سے کیا مطلب وہ تو اپنے ہی پیٹ کی دہائی دیتا ہے پاکستانی غریب عوام بھی عالمی تباہی کو کیا دیکھتے، جب اپنے گھر میں فاقے ہوں بس پھر کیا؟ مہنگائی کے بڑھتے گوشواروں نے عوام کو چیخنے پہ مجبور کر دیا عمران صاحب کے یوٹرن ایک قہر کی طرح ان کے معاشی حالات پہ برس رہے تھے تیل کی بڑھتی قیمتیں اور ان قیمتوں سے جڑی ہماری معیشت اور عمران حکومت دونوں کے معاملات الٹ گئے۔
اور ان حالات سے تنگ ملکی اداروں نے ایسا یوٹرن لیا کہ کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے تو کیا ایوانوں سے بھی نکل گئے اور سارے اپوزیشن سربراہان جو اسپتالوں میں پڑے تھے وہ ایوانوں میں آبیٹھے عمران خان چیختے رہے امریکہ کی سازش ہے مگر سازش اگر تھی بھی تو کامیاب ہو چکی تھی اس سارے عرصے میں ایک بات غور طلب رہی عمران خان نیازی ہر آدھے گھنٹے پہ میڈیا پہ نئے پیغام کے ساتھ نظر آئے اور ہر پیغام میں عوام کو سڑکوں پہ آنے کی کال دیتے رہے۔
انھوں نے عدم اعتماد تحریک تین اپریل ووٹنگ سے لے کر موجودہ دن تک نوجوانوں کو دھرنے دینے اور جلسوں میں ہجوم برپا کرنے کی دعوت دی ووٹنگ نہ کروانا اور دھرنوں کی دعوت کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ عمران نیازی خود بھی یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اس وقت کس سیاسی مقام پہ کھڑے ہیں اپوزیشن اور اسٹبلشمنٹ دونوں ادارے ان کے خلاف تھے ہواوں کا رخ بدل چکا تھا وہ عمران خان جو کبھی فوج اور عدلیہ کو ساتھ ملا کر بڑے سے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے نہ ڈگمگائے اب کی بار ایسے پھسلے کہ کرسی تو کرسی سیاسی ساکھ بھی گئی۔
آخری ہتھیار باقی رہا تو عوام، اسے انھوں نے ایسا لپیٹے میں لینے کا پروگرام بنایا اور مغرب کی غلامی کے نام پہ آدھی سے زیادہ عوام کو ہاتھوں پہ ڈال لیا امریکہ سازش کا واویلہ ستائیس مارچ سے لے کر آج یکم مئی تک چل رہا ہے مگر سازش ثابت ہو نہیں سکی سوائے عمران عدالت کے۔
اس سارے دورانیے میں ایک بات قابل غور ہے جب سے یہ معاملہ شروع ہوا عمران خان بلا ناغہ میڈیا پہ نظر آتے ہیں بذریعہ پریس کانفرنس، اجلاس اور میڈیا خطاب، اور یوتھ کو دھرنے اور احتجاج کی کال بھی باقاعدگی سے دے رہے ہیں مگر اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہان خاموش ہیں یا شائد میڈیا کے سوالات سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ ان کی طرف سے نہ تو پریس کانفرنس ہوتی ہے اور ہی میڈیا خطاب اور اس سارے عرصے میں ہم نے موجودہ حکومت کا بہت سکون بھرا روئیہ دیکھا۔
عدم اعتماد ووٹنگ میں تاخیر، وزیراعظم شہباز شریف سے حلف لینے میں تاخیر، پنجاب اسمبلی کے حالات، نئے وزیر اعلیٰ کے حلف لینے میں تین بار عدالت سے رجوع، عمران سمیت ان کے سپورٹرز کا حکومت کو کھلے عام چور اور غدار کہنا، مگر اس کے باوجود وہ خاموش رہے نہ تو سڑکوں پہ آئے نہ ہی دھرنے دئیے، مگر عقلمند جانتے ہیں کہ طوفان سے پہلے کی خاموشی آنے والے خطرے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
موجودہ حالات میں حکومت، پی ٹی آئی جماعت سے متعلق یوٹرن کسی وقت بھی لے سکتی ہے اور ہو سکتا ہے جلسے جلوس اور دھرنوں کا نتیجہ حکومت کے کسی سخت فیصلے کی صورت میں بھی آسکتا ہے۔