Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Tawaif

Tawaif

طوائف

اردو لیکچرار کے نمائندے سے انٹرویو میں اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ "اردو ادب میں طوائف کا کیا مقام ہے؟" اب نمائندہ اگر میرے جیسا ادب کی تاریخ سے بے بہرہ ہو تو وہ یہ ہی جواب دے گا کہ طوائف کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ اسے تو یہ نام نہاد شرافت کا پیکر معاشرہ قبول ہی نہیں کرتا۔ اور اس جواب پہ انٹرویو لینے والا ضرور طیش میں آ جائے گا کیونکہ اردو دان خوب جانتے ہیں کہ اردو ادب بہت حد تک طوائفوں کا مرہون منت ہے۔

تہذیب بےشک طوائف کو معاشرے کا ناسور کہتی ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو ادب کو پروان چڑھانے میں طوائف کا ایک خاص کردار ہے۔ زمانہ ماضی میں جسم فروخت کرتی ان خواتین کو اگر کوٹھے میسر نہ ہوتے تو اردو شاعری دفن ہو جاتی۔ مرد کی عاشقانہ فطرت سے کون واقف نہیں۔ اور اگر یہ فطرت صرف معصوم عاشقی تک ہی رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ بےشک اس کے ذہن و دل پہ اس کی من پسند عورت کا قبضہ بھی ہو مگر اسکے باوجود اسکی نظر دوسری پہ پھسل ضرور جاتی ہے۔ اور کبھی کبھی یہ نظر ہوس کی گندگی سے بھی لبریز ہوا کرتی تھی۔

اردو ادب کے ابتدائی ادوار میں معاشرے میں آج کے حساب سے بےحیائی قدرے کم تھی شریف خاندانوں میں خواتین کے لیے پردے کی پابندی تھی وہ کھلے عام بازاروں میں گھومتی نہیں تھیں، نامحرم مردوں سے ملنا برا سمجھا جاتا ہے عورت تعلیم کی غرض سے بھی گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی اور مرد کی عاشقانہ فطرت کے لیے پاکیزہ عورت ایک بیوی تو بن سکتی ہے مگر اس کی محبوبہ نہیں۔ محبوبہ کے طور پہ اسے وہ عورت چاہیے جو اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرے، جس سے کھل کر وہ ہر بات کہہ سکے، جو اس کی غمگساری کرے، اگر وہ پریشان ہو تو اس کی دلجوئی کرے۔ جبکہ گھروں میں اس کی شریکِ حیات حیا اور شرم کے غلاف سے نکل نہیں پاتی تھیں۔ وہ شریف خاندانوں کی نسلیں تو پروان چڑھاتی تھیں مگر مرد کو لطفِ نشاط کوٹھے پر ہی ملتا تھا۔

طوائفوں کو کوٹھے پہ علم و ہنر سے آشنا کروایا جاتا تھا وہ صرف رقص و موسیقی میں باکمال نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان کے لب و لہجے کی چاشنی بھی بےمثال ہوتی تھی۔ شائستگی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ادب کے یہ اطوار انھیں محفلوں میں پیش کرنے سے پہلے مکمل طور پر سکھائے جاتے تھے۔ طوائفیں شاعری کی کتابیں پڑھتی بھی تھیں اور خود شاعری بھی کیا کرتی تھیں اور معاشرے کے نام نہاد شریف رئیس، امرا، ادبا کو تسکین بھی فراہم کیا کرتی تھیں۔

آج کے وقت میں ہم ماضی کی جس پراثر شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں وہ شاعری کبھی پیدا نہ ہو پاتی اگر یہ طوائفیں نہ ہوتیں۔ شاعری کو پروان چڑھانے والی یہ خواتین بلا کا اندازِ بیان رکھتی تھیں کہ لکھنے والے اپنے دیوان تک ان کے قدموں پہ نچھاور کر دیتے تھے۔ انھیں رقص کے ساتھ ساتھ گائیگی کا بھی ریاض کروایا جاتا تھا۔ طوائف میں شخصی نکھار کے لیے بڑے بڑے استادوں سے (جو اپنے ہنر میں کمال رکھتے تھے) مشق لی جاتی تھی۔ اور کوٹھے کی مالکن بڑی بی ان استادوں کو تنخواہ بھی دیتی تھی تاکہ وہ استاد اپنے فرض کی ادائیگی میں لاپروائی نہ کریں۔

وقت گزرتا گیا اور گزرتے وقت کے ساتھ کوٹھے معدوم ہونے لگے اور طوائفوں کے لیے زمین تنگ ہوتی گئی۔ ان طوائفوں کے لیے بستی سے الگ علاقے مخصوص تھے جہاں معاشرے کے شریف مرد تو جا سکتے تھے مگر شریف عورتیں ان جگہوں کے نام بھی اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتی تھیں۔ مرد ان کوٹھوں پہ راتیں گزار کے بھی شریف رہتا تھا جبکہ ان شریف مردوں کو کوٹھے پہ بٹھانے والی عورتیں معاشرے کا ناسور کہلاتی تھیں پھر ایک وقت آیا جب تہذیب یافتہ معاشرے نے اس ناسور کو مٹانے کے لیے کوٹھے گرانے شروع کر دئیے لیکن اس وقت تک اردو ادب کافی پرورش پا چکا تھا اردو سے وابستہ اور اردو کی تاریخ کا علم رکھنے والے ادب میں طوائفوں کے کردار سے بخوبی واقف ہیں۔ اور ادب میں ان کے کردار کی اہمیت کو بھی جانتے ہیں۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed