Tamasha
تماشا
عرصہ ہوگیا ایک عام آدمی چیخ چیخ کے مہنگائی کی دہائیاں دے رہا ہے۔ مہنگائی کے موضوع پہ میں نے اور میرے جیسے کئی قلم کاروں نے آواز اٹھائی ہے بہت سارے تجزیہ نگار چینلز پہ آ کے تبصرے کر رہے ہیں مگر مجال ہے ایک فیصد بھی شرح مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہو، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مزید بڑھ رہی ہے۔ حکومت ٹی وی چینلز پہ بیٹھ کے بیان دیتی ہے کہ ایک عام آدمی کو ریلیف دیا جائے گا سستے رمضان بازار لگائے جائیں گے جہاں ہر شے سستی ملے گی۔
پھل، سبزی عام آدمی کی پہنچ میں ہوں گے۔ مگر کہاں ہیں یہ معیاری اور سستے بازار؟ معیاری تو چھوڑو یہاں کوئی بھی چیز ایک عام آدمی کی پہنچ میں نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں غریب پاکستانی کے لیے کہیں کوئی سستی دکان نہیں، ایک چھوٹی سی دکان پہ جا کر کسی بھی چیز کی قیمت پوچھ لیں میرا دعویٰ ہے موجودہ قیمت جان کر آپ چیز دوبارہ دکان کے اسی حصے میں واپس کر دیں گے جہاں سے اٹھائی ہوگی بہت ضروری ہو تو اسے خرید لیں گے ورنہ کوشش یہ ہی ہوگی کہ اس کے بغیر گزارہ کر لیں گے۔
میں نے خود اپنی بہت سی ضرورتوں کو مہنگائی کے بڑھتے زور کے باعث پس پشت ڈال دیا ہے مگر کیا یہ شرح یونہی بڑھتی رہے گی؟ یعنی حکومت جو دعوے کر رہی ہے غریب کو ریلیف دینے کا، وہ محض خام خیالی باتیں ہیں۔ نیوز چینلز پہ میں اشیائے خورد و نوش کے سرکاری ریٹس دیکھ رہی تھی مگر جب بازار میں جا کر قدم رکھا تو نیوز چینلز کی رپورٹ کو غلط پایا بازار میں تو ہر کوئی دوسرے کو نوچ ڈالنے پہ تلا تھا مجال ہے کسی کے اندر یہ خوف ہو کہ جس ماہ کو پررونق بنانے کے لیے یہ بازار سجے ہیں وہ تو بہت بابرکت ہے کیا اس مہینے کا تقدس منافع خوری کے باعث پامال نہیں کیا جا رہا؟
یہ منافع خور آخر ہیں کون؟ تو میرے معصوم پاکستانیوں یہ منافع خور ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں ہمارے ہی درمیان ان کا بسیرا ہے اور افسوس یہ ہے کہ ان منافع خوروں کی کہیں پکڑ نہیں۔ یہ لوگ یا تو قیمتیں بڑھا دیتے ہیں یا پھر ذخیرہ اندوزی کرکے مارکیٹ میں اشیائے خورد و نوش کی کمی کرکے سٹاک چھپا لیتے ہیں اور جیسے ہی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں تب یہ لوگ پوشیدہ خانوں سے مال نکالتے ہیں اور ان چیزوں کو زیادہ قیمت پہ فروخت کرتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان لوگوں کی پکڑ کیوں نہیں؟
جمہوریت موجودہ دور کی ضرورت ہے مگر یہ ہی جمہوریت میرے ملک پاکستان کے لیے وبال ہے بلکہ میرے ملک میں اس طرز حکومت نے آمریت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ پرانے دور میں بادشاہ یا اس کے وزیر ملک و قوم کی حالت دریافت کرنے خود بھیس بدل کر نکل آتے تھے اور غریبوں اور محتاجوں کی داد رسی کرتے تھے مگر میرے ملک کا موجودہ وزیراعظم ہو یا سابقہ دونوں کو ایک جیسا پروٹوکول اور سیکیورٹی چاہیے موجودہ وزیراعظم صاحب کا تو ذکر ہی کیا؟ اس ملک کے وزیر مالیات یا قومی خزانے کے وزیر نے کبھی قوم کے درمیان آ کے مسائل جاننے کی کوشش ہی نہیں کہ قوم کے مسائل کیا ہیں بلکہ ملک کی اصل حالت کے ذمے دار یہ لوگ ہیں۔
ہماری قوم غربت کی ایسی ماری ہے جہاں پتہ چلے خیرات بٹ رہی ہے ننگے پاؤں ڈورتی ہے۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ خیرات جو بٹ رہی ہے حلال پیسوں سے ہے یا ناجائز مال کو جائز بنانے کے لیے خیرات اور صدقہ دیا جا رہا ہے۔ بجلی، گیس کے بل باقاعدگی سے ہر ماہ گھروں میں پہنچ جاتے ہیں عوام کو سرکاری امداد بروقت کیوں نہیں ملتی، انہیں کیوں قطاروں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں؟ ایک آٹے کے تھیلوں پہ جھگڑتے ہوئے یہ غریب پاکستانی سانسیں تک گنوا رہے ہیں۔ لمبی لمبی قطاریں، اس کے بعد دھکم پیل اور آخر میں جھگڑے کے بعد موت۔
اس ملک کے امرا اور حکمرانوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جس ملک کی عوام آٹے کے ایک مفت تھیلے کے لیے سڑکوں پہ روزے کی حالت میں کیڑے مکوڑوں کی طرح مر رہی ہو۔ یہ آٹے کے تھیلے گھر گھر بھی پہنچائے جا سکتے تھے یہ آٹے کے تھیلے اور راشن ملازم پیشہ لوگوں کو سڑکوں پہ خوار کرنے کی بجائے دکانوں پہ فراہم کرکے سو روپے کی قیمت پہ فروخت کرکے بآسانی فراہم کیے جا سکتے تھے۔ مگر اس ملک کے حکمران یونہی غریب کی بےبسی سے کھیلتے رہیں گے۔ اور تماشا ختم ہونے پہ اس غریب کو مردہ حالت میں سڑکوں پہ چیل کوؤں کے کھانے کے لیے پھینک دیا جائے گا۔