Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Siasat Ya Taqat

Siasat Ya Taqat

سیاست یا طاقت

اے میرے دیس کے لوگو! تم شکایت کیوں نہیں کرتے؟

اتنے ظلم سہہ کر بھی، تم بغاوت کیوں نہیں کرتے؟

ملک میں نون لیگ حکومت عروج پہ، نیب کے کیسز ایک ایک کر کے ختم، مولانا فضل الرحمان جسے کبھی لوگ عالم دین کے نام پہ کالا دھبہ مانتے تھے آج چچا بنا لیے گئے۔ زرداری اور شریف خاندان سگے رشتوں کی سی محبت میں بندھ چکا ہے۔ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر باعزت بری، ان پہ کرپشن کے تمام مقدمات معاف، اسحاق ڈار واپس پاکستان میں وزیر خزانہ کے عہدے پہ بحال، شہباز شریف کی ساری کرپشن ایک طرف مگر ملک کے موجودہ وزیراعظم کا عہدہ سب سے اوپر۔

رانا ثنا بھی دوبارہ سے طاقت کا ڈنڈا گھمانے کی پوزیشن میں آ چکے ہیں۔ ڈرگ کیس ہو یا قتل مقدمے، سب نظر سے اوجھل ہو جائینگے۔ بینظیر کے قتل کے مقدمے پہ فی الوقت کوئی بات نہیں، مگر بلاول کے بیرون ملک دوروں کی تفصیل ان کی وزارت کی مدت سے تجاوز کر رہی ہے وزیر خارجہ کے عہدے پہ براجمان وہ چھ ماہ سے ہیں مگر بیرونِ ملک دوروں کی تعداد چھ کے ہندسے سے دو، تین گنا بڑھ چکی ہے۔

مفتاح اسماعیل ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کے بعد بیرون ملک تشریف لے گئے ہیں مریم نواز کا پاسپورٹ بھی انھیں دے دیا گیا اب وہ جلدی نون لیگ جماعت کے سربراہ اور اپنے والد سے ملنے یا شائد انھیں واپس پاکستان لانے کے لیے لندن جانے والی ہیں۔ اس کے بعد نواز شریف امکان ہے اہل ہو کر دوبارہ ملکی سیاست میں حصہ لیں گے ان کے تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے۔ بالکل اسی طرح عمران خان جو ابھی ملک کو کمزور بنانے کے مشن پہ کام کر رہے ہیں وہ بھی آنے والے وقتوں میں دوبارہ سے پارسا بن جائیں گے۔ ابھی جو ان پہ مقدمات کی بھرمار ہے وہ بھی گرد کی طرح چھٹ جائے گی۔

اب بات کرتے ہیں ایک عام انسان کی، بلکہ میں اپنی ہی پہلے بات کروں گی مجھے بنک میں پیسے ڈیپوزٹ کروانے کے لیے جانا پڑا۔ کیشئر کے پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ مگر میں جب وہاں گئی تو کیشئر محترمہ نے فرمایا، میڈم پہلے ٹوکن لے کر آئیں۔ میں نے عرض کی مجھے کچھ جلدی ہے اور ویسے بھی میرے علاوہ تو یہاں اور کوئی نہیں۔ جواب ملا، اصول کے مطابق چلیں ٹوکن لینا ضروری ہے۔ میں خاموش ہو گئی کیونکہ یہ ٹوکن لینا صرف ہم عام لوگوں کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ اصولوں کی پاسداری صرف ہم پہ لازم ہے۔

میں اس سے پہلے اکثر کالمز میں اپنی کولیگ جو کہ بیوہ ہیں ان کا ذکر کر چکی ہوں یہاں مختصر ان کا مسئلہ لکھوں گی دراصل شناختی کارڈ ری نیو کروانے جب وہ نادرا آفس گئیں تو پتہ چلا کہ ان کے نام پہ دو شناختی کارڈ بنے ہیں۔ ایک والد کے نام سے تو دوسرا شوہر کے نام پہ۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ جی واقعی ایسا ہے۔ کیونکہ والد کے نام والا کارڈ انھیں موصول نہ ہوا تھا اس لیے شادی کے بعد انہوں نے شوہر کے نام کے ساتھ نیا کارڈ بنوا لیا۔

اب جو کارڈ انھیں موصول بھی نہ ہوا تھا۔ نادرا دفتر نے اسی کا مسئلہ بنایا، اور موجودہ کارڈ ری نیو کرنے کے لیے پرانے کارڈ کی ایف آئی آر لانے کو کہا اب وہ عورت جو کبھی تنہا کسی پولیس والے سے بات بھی نہیں کر سکتی، پولیس تھانے کیسے جائے؟ بھائی کے گھر گئی اسے مسئلہ بتایا تو بھائی نے کہا کہ میں ایک دو دن تک ایف آئی آر کی کاپی لا دوں گا تمھیں تھانے جانے کی ضرورت نہیں۔

ہم ملک کے عام شہری ہیں اسلیے ہر ملکی ادارہ ہمیں کام کے اصول و قاعدے بتاتا ہے کہ کام اس طرح ہوتا ہے اور اس طرح نہیں۔ مگر یہ تمام ضابطے و اصول پیسے والوں پہ لاگو کیوں نہیں ہوتے؟ خاص طور پہ سیاست سے منسلک لوگوں پہ۔ اور جب یہ سیاسی لوگ برسر اقتدار ہوتے ہیں تب ان کی "پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں" والی مثل کے مترادف ہے۔ تب ہی تو اقتدار کے حصول کے لیے ہر طرح کے پینترے کھیلتے ہیں اخلاق سے گرے ہوئے حربے استعمال کرتے ہیں اس سوچ کو بالائے طاق رکھ کر کہ ان پینتروں اور حربوں سے کتنا زیادہ نقصان ملک و قوم کا ہو سکتا ہے۔

عوام بچاری ہماری سازشوں اور چالاکیوں کا بار سہہ بھی پائے گی یا نہیں؟ کیا وہ اس قدر متحمل ہے کہ برباد معیشت کی چوٹ برداشت کر سکے؟ ایک عام پاکستانی اس وقت ایسے حال میں ہے کہ اگر چوبیس گھنٹے بھی کام کرے تو بھی مہینے کے آخری دنوں میں جیب خالی ہو جاتی ہے اور اسے ادھار مانگنا پڑ رہا ہے، ہر کوئی دوسرے کا نوالہ چھیننے کے درپے ہے کیونکہ اپنی اولاد و خاندان کی ضرورتیں پوری کرنا مشکل ہو رہا ہے مگر یہ سارے مسائل صرف ایک عام آدمی کے ہیں حکمرانوں کو تو ان مسائل کی ہوا بھی چھو نہیں پاتی۔

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq