Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Shayad Tere Dil Mein Utar Jaye Meri Baat

Shayad Tere Dil Mein Utar Jaye Meri Baat

شائد تیرے دل میں اتر جائے میری بات

کچھ لوگ کمال کے مست ہوتے ہیں نو اپریل 2022 اپنی نوعیت کے اعتبار سے پاکستانی سیاست کا انوکھا اور اہم ترین دن ہے یہ وہ دن تھا جب پاکستان میں یہ عالم تھا جیسے آج کے دن کا آنا اس کائنات میں عدم اعتماد اور اس سے متعلق تبصروں اور خبروں کے لیے ہی ہوا ہے ملکی حالات پہ گہما گہمی اور سنسنی خیز فضا کا راج تھا ایسا لگتا تھا ایک پل بھی خبر سے نظر ہٹی تو جانے کیا کا کیا ہو جائے؟

مگر اسی پاکستان کی کچھ عوام ایسی بھی ہے جنھیں ملکی حالات سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ 9 اپریل کو ہی رات بارہ بجے کے قریب میری بڑی بہن اور بہنوئی گھر آئے میں نے کہا ایسے پر تجسس ماحول میں گھر سے نکلنے کا حوصلہ کیسے کیا؟

بہنوئی بولے خبریں دیکھنے کا تمھاری بہن نے وقت ہی نہیں دیا افراتفری طاری تھی اس پہ، کہ بس فوراً چلو، پاپا بولے ہاں پھر عمران حکومت گر گئی شہزادے۔ بہن آنکھیں پھیلا کر بولی اوہ عمران چلا گیا اتنا اچھا تھا کیا ہوا اسے؟

اس کی حیرت اور بیوقوفانہ جواب پہ میں سر پیٹ کر رہ گئی کہ ایک بہن کو دیکھو ملکی سیاست پہ تبصرے پہ تبصرے کیے جا رہی ہے اور دوسری ان حالات سے یکسر لاعلم، اسے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ آخر ملک میں چل کیا رہا ہے۔

لیکن اسکی سیاست میں عدم دلچسپی مجھے ایک حد تک اس لیے بھی پسند ہے کہ اپنی موج میں مست ہے وہ، کوئی فکر نہیں کون آرہا ہے اور کون جا رہا ہے۔

ورنہ میڈیا کی خبریں تو اچھے خاصے نارمل انسان کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بندہ کرنے کچھ لگتا ہے نیوز چینلز کی ہیڈ لائن دیکھتے ہی اپنا ضروری کام بھول کے خبر کی تفصیل پڑھنے بیٹھ جاتا ہے میرا خدا گواہ ہے مارچ سے لے کر موجودہ دن تک صرف سیاست پہ ہی لکھا ہے اور کوئی خیال ذہن میں بھٹک کر بھی نہیں آ رہا، کچھ بھی لکھنے بیٹھوں، تان آکر سیاست پہ ٹوٹتی ہے اب تو مجھے دیکھتے ہی گھر والے نیوز چینلز بند کر دیتے ہیں کہ خبروں کو دیکھتے ہی اسے دنیا کی ہوش بھول جائے گی۔

ان دنوں میں میرا خود یہ حال ہے کہ ملک اور سیاست کی بربادی دیکھ کر دل چاہتا ہے انسان ان سب سے نظر بچا کے کہیں دور پوشیدہ اور گمنام علاقے میں چلا جائے جہاں فطرت اور قدرت کے حسین نظارے ہوں اور اس کائنات کو بنانے والی کی یاد۔

باقی سیاسی مبصرین کے متعلق تو پتہ نہیں، ہاں مگر اس سازشی سیاست کو دیکھ کر میرا دل ضرور بے چین ہے کیونکہ پاکستان کا تباہ مستقبل آنکھوں کے سامنے ایک سیاہ تصویر کی مانند کھڑا ہے جسے یہ اندھی تقلید کرنے والے دیکھ نہیں پا رہے۔

عمران خان کے بہت سے سپورٹرز ایسے ہیں جن کی عمران سے وابستگی ان کی پراثر شخصیت ہے ماشاءاللہ ساٹھ سے اوپر کی عمر کے باوجود خان صاحب کا شخصی حسن قابل داد ہے مگر ملک حسن کے بل بوتے پہ چل پائے ایسا ممکن نہیں۔

میں جب بھی خان صاحب کے موجودہ جلسے دیکھتی یا ان کی تقاریر سنتی ہوں تو میرا ذہن اسی ایک بات پہ رک جاتا ہے جو انھوں عدم اعتماد سے کچھ ماہ پہلے کہی تھی کہ اگر مجھے کرسی سے اتارا گیا تو نتیجہ اچھا نہیں ہو گا اور انھوں نے اپنی بات کو پورا کیا بلاشبہ وہ ایک جنونی اور ضدی انسان ہیں مگر اس جنون اور ضد میں ملک کا امن و امان تباہ ہو رہا ہے۔

کیا خان صاحب 2018 انتخابات سے پہلے کے حالات بھول چکے ہیں کہ انھوں نے نواز حکومت کو گرانے میں اپنا کیا کردار ادا کیا تھا۔

موجودہ حکومت کے جتنے بھی ممبرز پہ کیس چل رہے ہیں ہم انھیں سچ مان کر چلتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی قوم کے کسی فرد کو ان کیسز کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں، ماسوائے عدلیہ کے۔ جب ہم عدلیہ سے یہ اختیار چھین لیں گے تو پھر وہی ہوگا جو توہین مذہب کے الزامات اور مقدمات میں ہوتا ہے، کسی شخص کو بھی ذاتی رنجش کی بنا پہ نشانہ بنایا جاتا ہے سر عام مقدمہ چلتا ہے تشدد پسندوں کی عدالت لگتی ہے اور جنونیت اور وحشت کا بازار گرم ہوتا ہے پھر مرے ہوئے شخص کے ساتھ سیلفیاں لی جاتی ہیں اور اس کی لاش کو دفنانے کی بجائے سرعام جلا دیا جاتا ہے۔

عدلیہ سے اختیار لے لینے کا نتیجہ تو پھر یہ ہی ہوگا تو کیا بہتر نہیں کہ اس ملک کے ہر ادارے کو اپنا اپنا کام کرنے دیا جائے۔

اوہ میں پھر موضوع سے بھٹک کر دوبارہ سیاست کی جانب آگئی میرے پچھلے کالم اور آج کے کالم کا مقصد فقط عوام کو ہوش دلانا ہے خدارا خود کے ساتھ زیادتی نہ کریں اس ملک کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ کرنے کی بجائے اسے سنوارنے کی طرف دھیان دیں۔

ملک اس وقت ایسی خانہ جنگی کی حالت میں ہے عوام کے غصے کو ابھار صرف سیاسی مفاد حاصل کرنے کی سعی کی جا رہی ہے اور اگر ملک کی معیشت مکمل تباہ ہوئی یا اس اندرونی خون ریزی کے نتیجے میں کاروبار بند ہوئے تو بھگتنا ایک عام آدمی کو پڑنا ہے جس کے پاس نہ تو دفاعی پروٹوکول ہے اور نہ ہی ملک سے فوری باہر جانے والے ویزے اور تیسری بات، اس عام آدمی کا بینک بیلنس بھی اتنا ہی ہے کہ جس مہینے تنخواہ نہیں ملتی اس مہینے قرضے میں گھر جاتا ہے۔

خدارا اس خونی سیاست اور من پسند سیاست دانوں کا پیچھا چھوڑ کر اپنے کاموں میں مست رہیں اور اس شو بازی اور گھٹیا سیاست کو روکنے میں اولین کردار میڈیا ادا کر سکتی ہے اگر وہ صرف پندرہ دن ان سیاست دانوں کی خبریں چلانا اور ان کے جلسوں کو کور کرنا بند کر دے، ساتھ ساتھ پریس کانفرنسوں پہ پابندی عائد کر دے۔ تو یہ سارے انسان کے بچے بن جائیں گے اس ملک کو بچانے کے لیے ان سیاست دانوں کی ان کاروائیوں کو روکنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ ملک کو آدھے سے زیادہ تو تباہ کر چکے ہیں پورا تباہ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz