Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Shaur

Shaur

شعور

قوم میں سیاسی شعور آ چکا ہے اب کوئی بھی انھیں بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ تیس سالوں سے قوم کو لوٹنے والے چور، لٹیرے کسی طور بھی اب ملک پہ قابض نہیں رہ سکتے۔ بہت اچھی بات ہے قوم میں شعور آ چکا ہے اور اگر پچھتر سالوں بعد بھی یہ شعور قوم کے حصے میں آیا ہے تو زہے نصیب۔ کیونکہ جہاں آنکھ کھلے، وہیں سویرا ہے۔

اور اگر یہ سیاسی شعور عدم اعتماد تحریک کے بعد قوم میں جاگا ہے تو اس لحاظ سے عمران خان کو انھیں آئینی طور سے وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کرنے والوں کا مشکور ہونا چاہیے، جن کی وجہ سے قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہوئی، کیونکہ ان کا اصل مشن تو ملک و قوم کی خدمت ہے، اور اگر اس خدمت کی ادائیگی میں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تو مضائقہ کیسا؟ اپنی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں شعور کے مفہوم و معنی کی وضاحت کروں گی۔

سادہ سے الفاظ میں شعور، اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے باخبر ہونے کو کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے Consciousness کہتے ہیں۔ طب و نفسیات میں اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ شعور اصل میں عقل کی ایسی کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں ذاتیت، فہم الذاتی (اپنی ذات کا علم)، حواس خمسہ کا علم، دانائی اور آگاہی کی خصوصیات پائی جاتی ہوں اور ذاتی و ماحولی حالتوں میں ایک ربط موجود ہو۔

دوسرے لفظوں میں شعور، عقل کا وہ مقام ہے جہاں انسان صحیح اور غلط کے فرق کی تمیز بخوبی جانتا ہو۔ مگر کیا شعور تعلیم کے بغیر ممکن ہے؟ یہاں میں شعور کی مزید وضاحت کر دوں شعور اندھی تقلید کا نام نہیں ہے۔ انسان اپنی سوچ کے زوائیے میں خارجی معاملات کو پرکھنے کے بعد درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کی سوچ کو جلا تعلیم بخشتی ہے۔ تعلیم معاملات کے فہم کا ادراک عطا کرتی ہے۔

لیکن اب ہمارے ملک میں ہو یہ رہا ہے شخصیت پرستی، اندھی تقلید کو ہوا دے رہی ہے۔ پسندیدہ لیڈر نے جو کہہ دیا، وہی حرف آخر ہے۔ لیڈر نے کہا میرے خلاف لکھنے اور بولنے والے لفافی اینکر اور صحافی ہیں۔ اور سپورٹرز حضرات نے جہاں من پسند لیڈر کے خلاف کچھ پڑھا، سنا، فوراً سے کمنٹ کیا "بکاؤ صحافت، چوروں کے ساتھی چور، رشوت خور، لفافی۔

لیڈر نے کہا میرے سوا ملک کے سبھی سیاسی راہنما چور ہیں۔ جو میرے ساتھ مخلص ہے اور میری جماعت کا حصہ ہے صرف وہی شفاف شخصیت کا مالک ہے اس کے سوا جتنے ملک میں سیاست کی دکان چمکائے بیٹھے ہیں وہ سبھی کرپٹ ہیں۔ تو سپورٹرز نے مخالف پارٹیوں کے سبھی لیڈران کا باہر نکلنا عذاب بنا دیا۔ اب چاہے وہ پبلک پیلس پہ اکیلے گھوم رہے ہو یا فیملی، بچوں اور خواتین کے ساتھ سیر و تفریح کے غرض سے آئے ہوں، سپورٹرز نے چور چور کے نعرے لگانا فرضِ اولین جانا۔

یہاں سپورٹرز کا مقصد چور لیڈران کو شرمندہ کرنا نہیں بلکہ اپنے پسندیدہ لیڈر کے کہے قول پہ آمین کہنا ہے۔ یہاں میں دو دن پہلے کا واقعہ کوٹ کروں گی۔ جو مونال ہوٹل اسلام آباد کی پارکنگ میں عطا تارڑ کے ساتھ پیش آیا۔ جسے فواد چوہدری نے بڑے معصومانہ انداز میں لڑکوں کے مسکرانے کی خطا کہہ کر میڈیا کے سامنے پیش کیا اور بھولپن میں استفسار کیا کہ آخر ان بچوں کا قصور کیا تھا؟ تارڑ صاحب کو دیکھ کر مسکرانے پہ انھیں گرفتار کروا دیا۔

تو میں فواد چودھری صاحب کو مشورہ دوں گی کہ چینلز پہ بیان دینے سے پہلے سی سی ٹی وی فوٹیج ہی دیکھ لیتے۔ فوج اور عدلیہ سے متعلق بیانات پہ تفصیلی کالم ہونا چاہیے مگر مختصراً آئین پاکستان کی رو سے عدلیہ انتظامیہ سے مکمل اک الگ ادارہ ہے نہ تو عدلیہ پارلیمنٹ کے معاملات میں دخل اندازی کر سکتی ہے اور نہ انتظامیہ عدلیہ کو اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے مجبور کرنے کی مجاز ہے مگر افسوس! اس سے الٹ ہو رہا ہے۔

فوج کا ادارہ ملک پاکستان کا طاقتور ترین ادارہ ہے فوج کا کام اندرونی و بیرونی دہشتگردی کا خاتمہ، سرحدوں کی حفاظت، ہنگامی حالات میں شہریوں کا تحفظ ہے مگر پچھتر سالوں سے ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ فوجی کمانڈر ان چیف نے جب حالات بے قابو دیکھے ملک میں مارشل لا لگا دیا حالانکہ ہمارے ساتھ قیام پذیر ہوئے ملک بھارت میں پچھتر سالوں میں ایک بار بھی مارشل لاء کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس کی مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ یا تو ہمارے سیاسی راہنما نااہل ہیں یا پھر فوج اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتی رہی۔

اب موجودہ حالات میں جب فوج نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کیا تو ملک کی سب سے مقبول ترین پارٹی بضد ہے کہ فوج کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے اور جب نتائج ان کے مطالبے کے مطابق ملتے نظر نہیں آتے تو وہی مقبول ترین پارٹی کے بیانات بھارت کو بہت تسکین دے رہے ہیں وہی بھارت جس کے بارے میں ہم کلاس اول سے اپنے بچوں کو پڑھاتے آ رہے ہیں کہ یہ ہمارا ازلی دشمن ملک ہے۔

مگر مجال ہے مقبول ترین پارٹی کے قائد راہنما کے بیان پہ کسی فالور نے جسارت کی ہو۔ کہ یہاں ہمارے قائد راہنما کا بیان ملکی بنیاد کو کمزور کر سکتا ہے۔ تو ایسی فیلو شپ شعور کے زمرے میں آتی ہے یا اس کے لیے اندھی تقلید کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq