Selab, Afat Ya Na Ehliyat
سیلاب، آفت یا نااہلیت
سوشل میڈیا پہ بہت ساری ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ جو تباہی مچاتے ہوئے سیلابی ریلے سے متعلق ہیں۔ تیزی سے بہتے پانی کا ریلا سب کچھ ملیامیٹ کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ وائس اوور میں لوگ گناہوں سے معافی مانگنے کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ تو کسی جگہ اللہ تعالیٰ سے بارشوں کو روک دینے کی التجائیں۔ مگر کیا اس سیلاب کی وجہ گناہوں کی زیادتی ہے۔ اگر ہے، تو سب سے پہلے تو امرا اور رؤسا کو پانی میں بہہ جانا چاہیے تھا۔
سیلابی ریلے کو بنی گالا سے ہوتے ہوئے جاتی امرا کی طرف بڑھنے کے بعد بلاول ہاؤس کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے تھی۔ اس سیلاب میں ساری اداکاراؤں کو بہہ جانا چاہیے تھا۔ جن کے لباس جسم ڈھانپنے کے لیے نہیں، بلکہ جسم کی نمائش دکھانے کے لیے پہنے جاتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے اڈے بہہ جانے چاہیے تھے۔ کیوں سیلاب، زلزلے غریب کے مقدر میں ہی آتے ہیں؟
بھوک، افلاس، دربدری، سڑکوں کی خاک، گندا پانی، خیرات کی روٹی، اترے کپڑے کیوں غریب کا حصہ ہیں؟ بارش رحمت تھی اور رحمت ہی رہے گی اسے زحمت کون بنا سکتا ہے؟ سیاسی حکمران، جن کا فرض تھا کہ وہ ملک میں ترقیاتی منصوبوں پہ کام کرتے، زیادہ بارشیں ہونا تو خوشحالی کی علامت ہے، کیا اس پانی کو سٹور کرنا اور برقی توانائی بنانے کے لیے استعمال کرنا حکمران طبقے کا فرض نہ تھا۔
مگر افسوس ہمارے پورے ملک پاکستان میں تو سیوریج کا نظام درست نہیں۔ بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کا نظام کیسے بنایا جا سکتا یے؟ پاکستان کو بنے پچھتر سال ہو چکے ہیں، مگر ہم تو اپنے ہم عصروں سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ بالفرض اگلے چھے مہینے بارشیں نہیں ہوتیں، تو اس وافر پانی کو آنے والے وقت میں کھیتی باڑی کے لیے استعمال ہونا تھا۔
اگر درست منصوبہ بندی سے دریاؤں پہ ڈیم بنائے جاتے تو یہ ہی وافر پانی جو گناہوں کا عذاب لگ رہا ہے، نیک اعمال کی جزا کے مترادف ہوتا۔ کے پی کے، جنوبی پنجاب، بلوچستان کا معتدد علاقہ سیلاب کی نذر ہو گیا۔کہیں بچے بہہ گئے تو کہیں والدین کا اتہ پتہ نہیں، مال مویشی، اناج، کھڑی فصلیں، گھر بار سب تہس نہس ہو گیا۔ مگر ان تباہ حالوں کا پرسانِ حال کون ہے؟
بین الاقوامی امداد جو سیلاب زدگان کے لیے بجھوائی جا رہی ہے کیا اس امداد کا کہیں حساب کتاب ہے یا نہیں؟ جو کھلے آسمان تلے بےیارو مددگار بیٹھے ہیں۔ وہ آخر کب تک سڑکوں کی دھول چاٹتے رہیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، آج سے تقریباً دو ماہ قبل بقر عید کے موقع پہ کراچی شدید بارشوں سے ڈوبا ہوا تھا، مگر سندھ حکومت کہیں اور مصروف تھی۔
سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں، کراچی شہر کی شائد ہی کوئی سڑک ہو، جو پانی سے خالی ہو، ورنہ کیا غریبوں کی بستیاں، تو کیا امیروں کی کالونیاں، سبھی پانی سے ڈوبی ہوئی تھیں۔ تب پورا پاکستانی میڈیا بھی سیاسی معاملات کی ٹوہ میں تھا۔ اور سیاسی حکمران بھی ایک دوسرے زیر و زبر کرنے میں مصروف تھے۔ سندھ ڈوب گیا بلوچستان ملیامیٹ ہو گیا، مگر میڈیا شہباز گل کے دکھڑے سناتا رہا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا تو ماہ اپریل سے صرف ایک کام رہ گیا ہے، پی ٹی آئی کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت، آج پی ٹی آئی کا یہ کیس، کل عمران خان کی دوسری درخواست، پرسوں عبوری ضمانت کا معاملہ، بس چھے مہینوں سے یا تو جلسے چل رہے یا عدالتوں میں کیس۔ سونے پہ سہاگا پورا میڈیا بھی اسی جانب لگا ہے۔
سیلاب نے جس وقت آدھا پاکستان ڈبو دیا، تب وزیراعظم صاحب بھی سیلاب زدگان کے پاس پہنچ گئے۔ اینکرز حضرات بھی کمیرے اٹھائے لائن میں لگے ہیں۔ فوج بھی پہنچ گئی مگر کیا فائدہ؟ مگر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی آنکھ تو ابھی تک نہیں کھلی۔
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
مگر اب تو گردوپیش بربادی ہے۔ مجبوروں کی آہیں اور بھوکے پیٹ کی سسکاریاں۔ صرف ایک دعا ہے، جو امداد جمع ہوئی ہے، کاش وہ مستحقین تک پہنچ جائے۔ ورنہ تو امرا کے خزانے بھرتے نظر آ رہے ہیں۔