Qaumi Shanakhti Card Daftar
قومی شناختی کارڈ دفتر
چھے دن پہلے کی بات ہے، مجھے اپنی بہن کے ساتھ ڈی ایچ اے میں موجود نادرا آفس جانے کا اتفاق ہوا۔ میری بہن کے شناختی کارڈ کی مدت ختم ہو چکی تھی اسے دوبارہ ایکٹیو کروانا تھا۔ جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا، ڈیڑھ گھنٹے سے نیٹ سرور ڈاؤن ہے۔ ادارے والوں کا کہنا تھا چونکہ آٹھ بج چکے ہیں نیٹ ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں، نمائندے ساڑھے نو بجے تک کام کریں گے (حالانکہ کلوزنگ ٹائم دس بجے کا تھا) اگر انتظار کرنا چاہتے ہیں تو بہتر، ورنہ کل صبح آٹھ بجے کے بعد کسی وقت بھی تشریف لا سکتے ہیں۔
میں نے اپنی بہن کی طرف دیکھا وہ انتظار کرنا چاہتی تھی میں نے بھی حامی بھر لی۔ ہمارے ساتھ والی کرسی پہ ایک اور محترمہ بیٹھی تھیں میں نے پوچھا آپ کا کیا کام ہے؟
وہ افسردگی سے بولی! کوئی ایک کام ہو تو بتاؤں۔
میں نے حیرانگی سے استفسار کیا! کیا مطلب؟
وہ بولی! لمبی بات ہے۔
میں نے کہا، کوئی بڑا مسئلہ ہے؟
اس نے اپنا شناختی کارڈ میرے سامنے کیا اور بولی! یہ کارڈ 31 مارچ کو ایکسپائر ہو گیا تھا۔ پندرہ دن بعد یعنی تیرہ، چودہ اپریل شاید، ہاں ان ہی تاریخوں کو جب شناختی کارڈ رینیو کروانے الخدمت نادرا دفتر گئی (جو ارفا ٹاور میں ہے) وہاں مجھ پہ انکشاف ہوا کہ دو شناختی کارڈ میرے نام پہ بنے ہوئے ہیں۔ 2002 میں اٹھارہ سال کی ہوتے ہی والد صاحب نے شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا آفس اپلائی کیا تھا۔
تب چونکہ ان کا سسٹم اب جیسا اپ ڈیٹ نہیں تھا اور اس وقت نادرا دفتر کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ آپ کے گھر کے پتے پہ بجھوا دیا جائے گا۔ مگر تین ماہ تک کارڈ نہیں آیا مگر اس عرصے میں ایک بڑا سانحہ یہ پیش آیا کہ میرے والد صاحب نہیں رہے، اس مشکل وقت سے نکلنے کے بعد والدہ نے یہ رائے دی کہ اب شادی کے بعد شوہر کے نام سے ہی بنوا لینا، لہٰذا 2008 میں شادی ہوئی اور 2009 میں، میں نے شوہر کے نام کے ساتھ اپنا شناختی کارڈ بنوا لیا۔
تب بھی نادرا والوں نے مجھ سے ایک بار بھی استفسار نہیں کیا کہ کیا آپ پہلے اپلائی کر چکی ہیں؟ اور چونکہ کارڈ مجھے موصول نہیں ہوا تھا لہٰذا میرے بھی ذہن سے پہلے والے کارڈ کا معاملہ فراموش ہو چکا تھا۔ اب جب 2009 کے بعد 2021 میں اس کارڈ کو رینیو کروانے آئی ہوں، تو مشکلوں کا پہاڑ منہ کھولے کھڑا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن میں تقریباً دو گھنٹوں بعد باری آئی۔
ویری فیکیشن کے لیے میں نے اپنے بھائی کو بھی دفتر سے بلوا لیا (کیونکہ اس دفتر میں ویری فیکیشن کے لیے باپ، ماں، بھائی یا شوہر کا ہونا ضروری ہے۔) میرا بھائی بھی میرے ساتھ انتظار کرتا رہا۔ اور جب نمبر آیا تو یہ سننے کو ملا کہ آپ کے استعمال میں دو کارڈز ہیں پہلے ان دونوں کارڈز کو بلاک کرنا ہو گا اس کے بعد نیا کارڈ بنے گا۔ جس کے لیے فارم فل کرنا ہو گا۔ مگر فارم دینے والے صاحب پہلے تو کھانا کھانے گئے تھے جب واپس آئے، تو نہ ان کے پاس فارمز تھے نہ ہی پرنٹر میں کاغذ۔
اس محترم نے کہا کہ آپ فرنچائز کی بجائے مین آفس چلے جائیں۔ وہاں مسئلہ فوراً حل ہو جائے گا۔ نادرہ شامی روڈ مین آفس کے دو چکر لگا چکی ہوں ایک دفعہ تو باری ہی نہیں آئی اور دوسری بار کسٹمر آفیسر نے مسئلے کا حل اول تو تفصیل سے بتایا ہی نہیں، اور جتنا بتایا وہ سمجھ ہی نہیں آیا۔ تیسری بار ڈیفینس آفس آئی ہوں کیونکہ یہ گھر کے قریب ہے۔ یہاں پہلی بار آنے پہ تو لگا تھا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ 27 اپریل کو پہلی بار اس آفس میں آئی تھی مگر تب سے تا حال مسئلہ جوں کا توں ہے۔
اس خاتون کا لمبا چوڑا مسئلہ جو کہ اسے پریشان کیے ہوئے تھا سننے کے بعد میں نے سوال کیا۔ اب یہ کیا کہتے ہیں؟ وہ دوبارہ شکایت آمیز لہجے میں بولی۔ پہلی بار تو انھوں نے ایک فارم فل کروایا، والد کے نام پہ بنے آئی ڈی کا نمبر بھی انھوں نے مجھے بتایا جو میرے علم میں نہیں تھا مگر جب اسے 789 پہ ٹریک کیا، تو معلومات ساری میری ہی موصول ہوئی۔ پھر دونوں شناختی کارڈ نمبرز کی تفصیل لکھ کے فارم اسلام آباد بجھوا دیا۔ اسکے بعد پندرہ سے بیس دن بعد آنے کا کہا تھا۔
جب دوسری بار آئی تو میڑک سند کی تصدیق کروانے کا کہا گیا۔ سند کی تصدیق کے لیے سیکینڈری بورڈ آفس گئی، جو کہ میرے گھر سے بہت دور ہے اس کے بعد ابھی تک ان کے بقول بورڈ آفس سے ویری فیکیشن لیٹر موصول نہیں ہوا۔ دوبارہ جانے کا کہہ رہے تھے مگر اس قدر شدید گرمی میں میرے لیے بورڈ آفس جانا آسان نہیں، لہٰذا میں نے ان کی منت سماجت کی کہ مجھے میرے دفتری معاملات کے لیے شناختی کارڈ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ میں جس ادارے میں کام کرتی ہوں وہ تنخواہ کیش دینے کی بجائے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرتے ہیں۔
یہاں ایک صاحب کو مجھ پہ رحم آ گیا اس نے ایف ای ڈیوڈ فارم اسٹامپ کے ساتھ فل کروا کے لانے کا کہا، کل جب ایف ای ڈیوڈ فارم لے کر آئی تو کہا گیا کہ پہلے والے شناختی کارڈ کی یا تو فوٹو کاپی دیں یا پھر اس کی گمشدگی کی ایف آئی آر۔ بھلا جو شناختی کارڈ مجھے ملا ہی نہیں اس کی فوٹو کاپی یا گمشدگی کی ایف آئی آر کہاں سے لاؤں؟ میں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو اس نے کہا! آپی آپ تھانے نہ جانا، میں آتا ہوں۔
وہ اپنی ڈیوٹی سے آف لے کر آیا اور تھانے گیا وہاں موجود تھانیدار نے کہا یہ کام آج نہیں ہو گا کل یا پرسوں آنا۔ ابھی نہیں ہو سکتا۔ اس کے بار بار انکار پہ بھائی نے کہا۔ "چودھری صاحب چاہ پانی دا خرچہ لے لو" یہ سن کر پولیس چودھری صاحب نے بھائی کو اندر ریسٹ روم جانے کا اشارہ کیا۔ ریسٹ روم وہ جہاں پولیس والوں کے آرام کرنے کے لیے چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ایف آئی آر بنانے کے بعد تھانیدار صاحب نے فرمایا اس کام کے ہزار روپے لوں گا۔
چار و ناچار اسے ہزار روپے دینے پڑے۔ وہ کام جو دو تین سو کا تھا وہ ہزار روپے میں ہوا، اب تک دو بار ایف ای ڈیوڈ بنوا چکی ہوں پہلا آٹھ سو کا بنا تھا، دوسرا پانچ سو کا، بورڈ آفس سند تصدیق کے آٹھ سو ادا کیے ہیں اب ایف ای ڈیوڈ فارم ادائیگی کی فیس نادرا والوں نے ہزار روپے بتائی ہے۔ بینک والوں نے ڈیبٹ بلاک کیا ہوا ہے جب تک رینیو شناختی کارڈ نہیں جمع کروا دیتی، اکاؤنٹ سے رقم نہیں نکلوا سکتی، سیلری اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوتی ہے۔ بینک کے مسئلے نے الگ میری پریشانی کو بڑھا رکھا ہے۔
آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
شوہر؟ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ اگر زندہ ہوتے، تو نادرا کے چکر لگانے شائد مجھے مشکل نہ لگتے۔ بھائی مشکل وقت میں مدد تو کرتے ہیں لیکن وہ بھی اپنے اپنے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے ہیں گلہ بھی کیا کرنا ان سے۔
کیا؟ حیرت اور دکھ سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کیونکہ وہ خاتون دیکھنے میں ابھی بھی بہت خوبصورت اور جوان دکھائی دے رہی تھی۔ اسی اثناء میں گھڑی نے ساڑھے نو بجا دئیے، دفتر کے نمائندہ نے دوبارہ اعلان کیا نیٹ سرور میں خرابی ٹھیک نہیں ہوئی اس لیے سب لوگ کل تشریف لائیں۔ اس خاتون نے تھکے وجود کے ساتھ دستاویزات والا لفافہ اٹھایا اور بولی اب کل ہی آ جاؤں گی۔
راستہ بھر میں اس عورت کے متعلق سوچتی رہی۔ اپنے حکومتی اداروں کی بے حسی پہ رونے کو دل چاہ رہا تھا جو بیوہ کو بھی ذرا رعایت نہیں دیتے، یہ تمام حکومتی ادارے صرف نادرا ہی نہیں کوئی بھی ادارہ جو سرکاری سر پرستی میں ہے عوام وہاں ایسے ہی خوار ہو رہی ہے ہمارے خون پسینے کی کمائیوں پہ عیش کرنے والے یہ سرکاری اہلکار کرسیوں پہ بیٹھ کے عوام کی مجبوریوں کا تماشا بنا رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ انھیں احساس دلانے والا یا عام آدمی کے لیے آواز اٹھانے والا یہاں کوئی نہیں۔