Pehla Qatra
پہلا قطرہ
میں نے جب کالج جوائن کیا، ادارے کی نصابی سرگرمیوں کے کوارڈینیٹر سر عثمان ایک تعلیم یافتہ مگر انتہائی بدزبان شخص تھے۔ مجھے چونکہ اس بدزبانی کی عادت نہ تھی اس لیے یہ رویہ میرے ناقابلِ برداشت تھا۔ ملازمت کے تیسرے دن میری ان سے بحث اس بات پہ ہوئی کہ آپ کو اگر کچھ سمجھانا مقصود ہے تو براہ کرم اپنے لہجے کو نرم اور آواز نیچی رکھیے کیونکہ نہ تو میرے کان خراب ہیں اور نہ ہی مجھے دماغی لحاظ سے کچھ مسئلہ ہے کہ آپ کی کہی بات میری سمجھ میں نہ آئے، آپ ایک بار کہہ دیں گے مجھے ازبر ہو جائے گی۔
چونکہ وہ مرد تھے اور انا کا معیار بھی کافی بلند رکھتے تھے، لہٰذا ان کا جواب جو مجھے ملا وہ یہ تھا کہ ہم پرنسپل آفس میں بات کریں گے۔ میں غلطی پہ نہ تھی لہٰذا میں ان سے پہلے پرنسپل آفس میں جا بیٹھی۔ جو صورتحال جیسی تھی میں نے الف تا یے سنا ڈالی۔ پرنسپل ایک اچھی اور تحمل مزاج خاتون تھیں۔ انہوں نے بات مکمل سنی اور نرم آواز میں جواب دیا کہ "کوئی مسئلہ نہیں اگر آپ کو کچھ سمجھ نہ آئے تو آپ میرے پاس آ جائیں میرے آفس کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا"۔
ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کوارڈینیٹر صاحب کو بھی تنبیہ کی کہ "خواتین کے ساتھ نرمی سے بات کیجیے، گاجر مولی میں فرق ہوتا ہے یا نہیں، اسی طرح مرد و عورت میں بھی فرق ہے۔ عورت اگر ملازمت پیشہ ہو اور تعلیم یافتہ بھی، تو کم از کم اسے بولنے کا حق ضرور دیں۔ بحیثیت مرد اس پہ اپنی مرضی اور سوچ مسلط کرنا انتہائی غلط عمل ہے۔ ہو سکتا ہے اکثر جگہوں پہ وہ آپ کی ہر بات پہ آمین کہہ دے مگر اس وقت وہ کیسی دماغی کشمکش کو برداشت کر رہی ہوگی یہ اسکے اور خدا کے سوا کوئی سمجھ نہ سکے گا"۔
اس وقت میں نے صرف اپنے لیے آواز اٹھائی، کچھ دنوں بعد بہت سے ملازمین کی طرف سے کوارڈینیٹر کے بارے میں شکایات موصول ہونے لگیں کہ ان کا لب و لہجہ ایک تعلیم یافتہ مرد کے لیے مناسب نہیں، انہیں خود کو بدلنا چاہیے مجھ سے پہلے وہاں سب ملازمین اس روئیے کے عادی ہو چکے تھے مگر میری ایک شکایت سے باقی سب کو بھی حوصلہ ملا۔ انہوں نے میری بات سنی، اس پہ اتفاق کیا اور ہر کسی کو یہ ہی لگا کہ عزت نفس سب کی مقدم ہونی چاہیے۔
حالات میں دس فیصد تبدیلی آئی۔ حالانکہ میرا شکایت کرنا پورے ادارے کے ملازمین کے لیے نہ تھا میں نے صرف اپنی بات سامنے رکھی لیکن میرے جیسے حالات سب کو درپیش تھے اس لیے میری آواز کے ساتھ آوازیں ملتی گئیں اور باقاعدہ ایک نعرے کی صورت میں تبدیل ہوگئی کہ لہجے کی گرمی ناقابلِ برداشت ہے۔
میں اپنے ملک کے سیاسی حالات کو اگر میری بات سے ملاؤں تو ان دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ ہمارے لوگ عرصہ دراز سے چپ تھے فوج کی سیاست میں مداخلت، حکمرانوں کو تخت پہ بٹھانا پھر اتار دینا قومی آمدنی کا ستر فیصد فوج کے لیے مخصوص کرنا، سرکاری مراعات کے ساتھ ساتھ طاقت اور اقتدار کا بلواسطہ استعمال، اس سے ہر باشعور پاکستانی واقف تھا مگر بولتا کوئی نہیں۔
عمران نیازی جب اقتدار سے اتارے گئے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ انہیں اتارا گیا ہے اور امریکہ کی اس ساری سازش میں مداخلت "آٹے میں نمک" کے برابر ہے اس مثل کے مترادف کہ "گھر کو آگ ہمیشہ اپنے ہی چراغ سے لگتی ہے" یہ سیاسی آگ بھی گھر کے اندر سے لگی ہے وہ الگ بات کہ اس کا الزام آغاز میں مغرب والوں پہ ڈالا گیا۔ عمران خان نے آواز اپنے لیے اٹھائی تھی پورے ملک کے لیے نہیں، انہیں یہ شکایت تھی کہ مجھے اقتدار سے کیوں اتارا گیا؟ میرا تختہ کیوں الٹایا گیا؟
مگر اس آواز سے آوازیں ملتی گئی کیونکہ اس وقت ایک عام پاکستانی آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بےروزگاری، بجلی گیس کے بلز اور بلاوجہ ٹیکسوں کی ادائیگی سے نالاں ہے بلکہ مرنے کے درپے ہے۔ اسلیے ان سب کو اس وقت عمران خان اپنا مسیحا لگتا ہے انہیں لگتا ہے کہ یہ مشکل میں پھنسے پاکستانیوں کو راحت دے گا لیکن عمران خان کی یہ کوشش انفرادی ہے وہ جنگ اپنے مفاد کے لیے کر رہے ہیں ورنہ کونسا راہنما بیٹھے بٹھائے اسمبلیاں تحلیل کرکے صوبائی اقتدار کی قربانی دے گا۔
یہ خیال عمران خان کو تب کیوں نہ آیا جب 2022 مارچ میں ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا تب انہیں کیوں خیال نہ گزرا کہ اسمبلیاں تحلیل کرکے دوبارہ نئے انتخابات کروا دئیے جائیں۔ اس وقت اگر ایسا ہوتا تو حالات اس نہج تک پہنچتے ہی نہیں۔ لیکن چونکہ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ اگر الیکشن ہو گئے تو وہ ہار جائیں گے اس لیے موجودہ وقت کے مسیحا نے گزشتہ سال صرف اپنا فائدہ سوچا اور ان کے حمایت کرنے والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان حق کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ہو بھی سکتا ہے کہ یہ ان کے حق کی جنگ ہو مگر یہ کسی صورت بھی ملک کے مفاد کی جنگ نہیں ہے۔
بےشک تاریخ میں وہ فوج کے بےجا اخیتارات کے خلاف آواز اٹھانے والے پہلے شخص گنے جائیں اور مستقبل میں بھی بہت سارے لوگ اس تحریک کو آگے لے کر چلیں مگر یاد رکھیں چیختا ہمیشہ وہ ہے جسے تکلیف ہوتی ہے وہ اپنے درد میں آہ و زاری کرتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ پتھر ایک کے سر پہ لگے اور چیخ کسی دوسرے شخص کی بلند ہو۔