Pasand Ka Nikah Ya Aghwa (2)
پسند کا نکاح یا اغواء (2)
گھر سے کراچی تک کی مکمل روداد پہ میں دونوں فریقین کے بیانات سے متفق نہیں نہ ہی دعا زہرہ کے اور نہ ہی والدین کے اس مؤقف سے کہ لڑکی کو اغوا کیا گیا ہے کیونکہ دعا گھر سے باہر اپنی مرضی سے نکلی ہے اسے گھر کے اندر سے اغوا نہیں کیا گیا ہاں اس کے بعد کراچی سے لاہور تک وہ کس طرح پہنچی اس پہ تحقیقات ضرور ہونی چاہیے۔
انٹرویو میں متعدد بار دعا نے کہا کہ اس کے والدین جھوٹ بول رہے ہیں وہ اس کی شادی تایا زاد زین سے کروانا چاہتے تھے لیکن ظہیر سے محبت اور والد کے پلاٹ کے لالچ کے سوا دعا نے زین سے شادی نہ کرنے کی اور کوئی وجہ نہ بتائی کہ آیا وہ ان پڑھ تھا، بے روزگار تھا، برا انسان تھا؟ کسی سے شادی نہ کرنے کی وجوہات تو اس شخص کی خامیاں ہوتی ہیں مگر زین کی کسی بھی برائی کا ذکر انٹرویو میں نہ تھا۔
یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ زین العابدین اور اس کا خاندان دعا کو موجودہ حالات سے زیادہ خوش رکھتے، عزت و احترام کے ساتھ اور معاشرے کی بدنامی و عدالتوں اور پولیس کی خواری کے بنا، مگر سچی محبت کا لیبل لگا کے دعا نے اپنے لیے خود پہ راستہ چنا۔ ایسے بہت سارے نکات ہیں جس پہ دعا کا بیان شک کو ابھارتا ہے اور کسی جگہ والدین کی بھی غلطی نظر آتی ہے۔
اس معاملے کو اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا اور پرکھا جاۓ تو احساس ہو گا کہ دعا جیسی لڑکیوں کا قصور ان کے غلط اقدام کی صورت میں ہمارے سامنے آ جاتا ہے مگر ماں باپ کی غلطی پوشیدہ ہی رہتی ہے۔ بیشتر افراد شاید اس بات سے متفق نہیں ہوں گے کہ اس معاملے میں ماں باپ کی کوئی غلطی ہو سکتی ہے خصوصاً ماں کی۔ انجانے میں ہی سہی، غلطی بہر حال ہوئی ہے ماں باپ سے، اپنی جواں سال بیٹی کے ہاتھ میں ٹیب یا موبائل تھما کر ماں باپ نے خود تباہی کا سامان پیدا کیا۔
اگر لبرل والدین بنتے ہوئے ایسا کرنا ضروری ہی تھا تو کم از کم بچی پہ نظر تو رکھتے۔ بچوں کو پیزا، نوڈلز، برگر کھلا کر اور ٹیبلٹ دے کر والدہ نے سوچا بچی ہماری وفادار رہے گی۔ وفاداری کے تقاضے فقط من پسند کھانے نہ تھے ایسے لبرل گھرانوں کے بچے مکمل آزادی کی خواہش کرتے تھے وہ چاہتے ہیں نوعمری میں ہی زندگی کا ہر فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔
پہلے کے دور میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں جب کلب و سینما جاتے یا چوری چھپے نازیبا مواد پڑھتے تو والدین کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہوا کرتا تھا مگر آج یہ حدود میڈیا نے ختم کر دی ہے۔ بسا اوقات والدین کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ پاس بیٹھا ان کا بیٹا یا بیٹی کیا کارنامے سر انجام دے رہے ہیں؟ نتیجے سے بے پرواہ ہو کر والدین اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھما کر انہیں یہ گھٹیا تفریح خود مہیا کر دیتے ہیں اور آخر میں ماں باپ مظلوم بن کر سامنے آتے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنی اولاد کو اس فحاشی کے کنویں میں اپنے ہاتھ سے دھکا دے کر ان پر ظلم کر چکے ہوتے ہیں۔
پاکستانی ڈیجیٹل میڈیا پہ تو دل عش عش کرنے کو چاہتا ہے۔ معاشرے میں انتشار اور ہراس پھیلانے میں یہ پلیٹ فارم ہمیشہ اول رہا ہے۔ کوئی بھی چینل دیکھ لیں گھر سے بھاگ کر یا والدین کی مخالفت سے پسند کی شادی کو ایک ایڈونچر اور بہادری بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ دعا یا اسی مناسبت کا کوئی بھی معاملہ ہو یا بچے ماں باپ کی عزت کا فالودہ بنا کر ہیرو بن جائیں تو پھر ان میڈیا چینلز کی پھرتیاں ملاحظہ کیجیے۔
چھوٹی سے چھوٹی خبر کو ایسا مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرتے ہیں کہ دماغ ماؤف ہی ہو جائے، انسان تڑپ کر پناہ مانگنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اے الہٰی اس شر سے ہمیں بچا۔ میں کئی بار اپنے کالمز میں کہہ چکی ہوں کہ اگر معاشرے کو صیحح خطوط پہ چلانا ہے تو سوشل میڈیا کی حدود مقرر کی جائے۔ سوشل میڈیا کے لا محدود اختیارات شدت پسندی کو بڑھانے کی وجہ بن رہے ہیں۔
عدالتی فیصلے پہ بات کی جائے تو لاہور کی عدالت ہو یا سندھ کی، معاملہ دونوں جگہ ایک ہی رہا۔ والدین کے مطابق جج نے نہ تو نکاح نامہ دیکھا اور نہ ہی دعا کا نادرا بے فارم، جبکہ سندھ کی عدالت میں لڑکی کی اصل عمر معلوم کرنے کے لیے میڈیکل کروایا گیا کیونکہ سندھ میں کم عمری کی شادی ایک جرم ہے۔ ایک ہی ملک کے دو صوبے مگر قانون دونوں کے لیے مختلف۔
لاہور کی عدالت نے کم عمری کی طرف توجہ ہی نہ دی جبکہ سندھ کی عدالت نے عمر کے تعین کے لیے بے فارم کی بجائے میڈیکل کروانے کا حکم جاری کیا۔ میرا سوال ہے کہ کیا میڈیکل رپورٹ کی حیثیت نادرا فارم سے زیادہ ہے؟ نادرا ہمارے ملک کا ایک اہم ترین ادارہ ہے اگر اس کے کاغذات غیر یقینی ہیں تو میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ مستند دستاویزات کون سے ہیں؟ اور اگر نادرا دستاویزات میں ہیر پھیر ہوتا ہے تو حکومت اس پہ سخت کاروائی کیوں نہیں کرتی؟
اس کے علاوہ قانونی طور پہ شادی کے لیے لڑکا یا لڑکی کی عمر کی ایک حد مقرر کی جائے تاکہ عام شہری کے علم میں ہو کہ کس عمر تک لڑکی کی شادی غیر قانونی ہے۔ اس ملک میں ووٹ ڈالنے کے لیے عمر کی معیاد مقرر ہے مگر پسند کی شادی کا کوئی بھی مقدمہ درج ہو، مشرقی روایات فرسودہ ہی سہی مگر یہ ہمارے معاشرے کا حسن ہے اور ایسی ہی روایت یہ بھی ہے کہ ہماری بیٹیاں باپ کا غرور ہوتی ہیں۔
باپ بڑے مان سے اس کی پرورش کر کے دوسرے گھر عزت سے بجھواتا ہے کہ زمانے میں اس کا غرور برقرار رہے کہ أس نے اپنی بیٹی کی نہ صرف اچھی پرورش کی، بلکہ اچھی تربیت بھی کی ہے۔ ہماری بیٹیاں تو وہ ہیں کہ جب ہم ان کے سامنے بیٹوں کی دعائیں مانگتے ہیں تو ان دعاؤں پہ وہ خلوص نیت سے آمین کہتی ہیں، ان کا صبر اور برداشت ہی تو ہمارے گھرانوں کی خوبصورتی ہے۔
ایسے میں کہیں سے باغی لڑکی دعا زہرا جو والدین کی ڈانٹ کو تشدد اور گھر سے بھاگ جانے کو سچی محبت کہتی ہو اور میڈیا اس کے اس غلط اقدام کو سراہے، عدالتیں اس کی کی گئی مرضی پہ مثبت فیصلہ سنا دیں تو ذرا سوچیں ہم جو عزت کے نام پہ مر مٹنے والے لوگ ہیں کہاں منہ چھپاتے پھریں؟ اور دعا زہرا اور ظہیر نے معاشرتی اقدار کی جو بے حرمتی کی ہے تو اس کا اثر باقی بچیوں پہ بھی پڑے گا۔
وہ بچیاں جن کے والدین آزاد خیال نہیں، مگر وہ ذہین اور اچھے کردار کی ہیں ایسے واقعات ان بچیوں کے لیے بھی وبال بن جاتے ہیں۔ گھریلو ماحول ان کے لیے مزید تنگ ہو سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتی دعا کے والدین اپنی بیٹی کے اس غلط اقدام پہ شدید ردعمل کریں بلکہ اس وقت انھیں بھی اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنا چاہیے اور آگے کے فیصلے سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ سے کریں۔
فرقے کے فرق کو مسئلہ نہ بنائیں بیٹھ کر گفتگو کے ذریعے اس معاملے کو حل کریں اور اس گفتگو کو چار دیواری تک محدود رکھیں، گھر کی باتیں جب بازاروں میں ہونے لگیں تب سوائے بدنامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بات بڑھانے کی بجائے اسے سمیٹنے کی کوشش کریں کیچڑ کو جتنا اچھالتے جائیں چھینٹے اتنے ہی زیادہ پڑتے ہیں۔ یہ اغواء کا معاملہ نہیں ہے کیونکہ لڑکی کو گھر کے اندر سے کوئی زبردستی اٹھا کر نہیں لے کر گیا۔
اللہ ربّ العزت سب کی عزتوں کی حفاظت کرے اور نیک و صالح اولاد سے نوازے۔