Nahi Hai Iqbal Na Umeed Apni Kasht e Veeran Se
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
"بال جبریل" علامہ اقبال کا دوسرا مجموعہ کلام ہے یہ کتاب بانگِ درا کے بعد 1935ء میں منظر عام پر آئی۔ بانگِ درا اور بالِ جبریل کی اشاعت کے درمیان تقریباً بارہ سال کا وقفہ ہے ان بارہ برسوں میں علامہ اقبال کا کوئی اردو مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا۔ البتہ فارسی کے دو مجموعے چھپے۔
"بال جبریل" میں وہ اردو کلام شامل ہے جو علامہ اقبال نے بانگِ درا کی تکمیل سے بال جبریل کی اشاعت تک کہا تھا اس لحاظ سے یہ کتاب بہت اہم ہے کہ ان کے فارسی کلام میں جو کچھ صراحت سے بیان ہوا ہے۔ وہی کچھ بال جبریل میں اشارةً آ گیا ہے۔ بال جبریل کا پہلا حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں نظمیں ہیں۔ دونوں حصے علامہ اقبال کے کمال و فن کے نادر نمونے ہیں۔ جہاں تک افکار و خیالات کا تعلق ہے۔ اس کتاب کا آغاز ہی غزلیات سے ہوتا ہے۔ یہ غزلیات معنوی اعتبار سے غزل کے جدید ترین رنگ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان غزلوں میں اقبال کے اعتماد میں گہرائی اور فکر میں استحکام نظر آتا ہے۔
پہلے حصے میں پہلی 16 غزلیں بقیہ غزلوں سے الگ درج کی گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ زیادہ تر بعدالطبیعات موضوعات پر محیط ہیں۔ یعنی خدا، کائنات اور انسان کے تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ ان کے بعض اشعار خاصے دقیق ہیں۔
اس کتاب کے پہلے حصے کی غزل نمبر سات کا چھٹا شعر کچھ یوں ہے؛
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اس شعر میں اللہ رب العزت کو اقبال ساقی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں یعنی وہ ہستی جو لطف و کرم بخشتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اے میرے رب! اگرچہ میرے کھیت ویران ہیں پھر بھی میں ناامید نہیں، بس تیرے ایک ابر رحمت کا آسرا چاہیے۔ شعر میں کشتِ ویراں سے مراد "امتِ مسلمہ" ہے اور ساقی سے مراد ساقیِ ازل یعنی رب کی ذات ہے، جو اہلِ طلب کو شربتِ ایمان سے فیضیاب کرتی ہے۔ گویا علامہ صاحب رب کی بارگاہ میں عرض پرداز ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اگرچہ تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کے نیم مردہ جسم میں روحِ ایمان باقی ہے۔ بس ذرا ایک تیری رحمت کا اشارہ چاہیے۔ ان میں پھر وہی ایمان کی شادابی دوبارہ لوٹ آے گی۔ اور گلشنِ ہند کلمہء توحید کے ثمرات سے دوبارہ لہلا اٹھے گا۔
کلیاتِ اقبال میری الماری کی انتہائی خوبصورت کتاب ہے کچھ ماہ قبل یہ کتاب مجھے ادبِ اطفال کی ایک سینئر لکھاریہ نے بطور تحفہ ارسال کی تھی۔ چونکہ یکم جولائی سے ہمارے کالج میں عید کی چھٹیوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ لہٰذا بہت سارے رکے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ الماری درست کرتے ہوئے جو اس کتاب پہ نظر پڑی، تو میں نے اسے سامنے میز پہ رکھ دیا تاکہ پہلی فرصت میں ہی اس سے فیضیاب ہو سکوں۔ مگر کتاب کھولتے ہی مذکورہ بالا شعر نظر سے گزرا اور ایسا گزرا کہ آنکھ اس پہ ٹھہر گئی۔
اقبال کا یہ شعر مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی ایسی کرن ہے جو پژمردہ اور یاسیت میں ڈوبے قلوب و اذہان کو حیاتِ نو کا پیغام دیتی ہے۔ حالات چاہے، کتنے ہی دگرگوں اور اعصاب شکن کیوں نہ ہوں، مسلسل اور درست سمت میں کی گئی جدوجہد سے تبدیل ہو جاتے ہیں بشرطیکہ صبر و استقامت اور عملِ پیہم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
ایک وہ وقت تھا جب مسلمان قوم متحدہ ہندوستان میں غیر خدا کو ماننے والوں کی غلام بن گئی تھی۔ مگر اقبال اُس وقت بھی اس امت کی پست حالی سے مایوس نہیں تھے۔ بلکہ وہ ان کے جذبات و شجاعت کے کارناموں پہ یقین رکھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہیں کہ اے رب! اگر تیری رحمت کا ابر برس جائے، تو یہ کھیتی پھر سے سیراب ہو جائے گی۔ اُس وقت ملتِ اسلامیہ فرقوں میں بٹی ہوئی تھی اور وہ فرقے کسی مسلک سے وابستہ نہ تھے، بلکہ سوچ و خیال کے دھاگے آپس میں میل نہ کھاتے تھے کسی کو انگریزی تعلیم پہ اعتراض تھا تو کوئی انگریزوں سے تعلقات کو معیوب سمجھتا تھا کوئی ہندو مسلم اتحاد کا حامی تھا تو کسی کو ان کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہ تھا۔ مگر 1933 کے بعد جب برصغیر کے تمام مسلمان ذاتی افکار کے پند سے نکل کر ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے ہوئے، تب آزادی ملی۔
آج بھی موجودہ ملکی حالات ماضی سے کسی طور مختلف نہیں۔ بےشک ہم آزاد اور بااختیار قوم ہیں مگر آج بھی ہم ذاتیات اور انفرادی سوچ کے غلام ہیں۔ قوم کئی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ سب نے اپنی سوچ و پسند کے لیڈر منتخب کر رکھے ہیں، اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ ملک وقوم کے ساتھ مخلص کون ہے؟ کون ہے جو اس وقت ڈوبتی کشتی کی خیریت چاہنے والا ملاح ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال ہے ہم آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے ہیں۔ باہر سے کسی نے کیا حملہ کرنا ہے ہم تو خود ایک دوسرے پہ حملے کر رہے ہیں۔ معیشت تباہ و برباد ہے۔ بدحالی و غربت جشن منا رہی ہیں۔ بےروزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی کا سیلاب منہ کھولے غریب و مجبور عوام کو نگلنے کے درپے ہے۔ ڈالر اور پیڑول پکڑ میں آنے کو تیار نہیں۔
حکمرانوں کے تو کیا کہنے؟ نہ صرف آپس میں خود جھگڑ رہے ہیں بلکہ اپنے حصول مفاد کی خاطر سادہ لوح عوام کو بھی اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ کوئی ایسا نہیں جو صرف قوم کی بھلائی جا سوچنے والا ہو۔ ماضی میں اقبال کو امیدِ کامل تھی کہ اک روز ضرور یہ بھٹکی قوم راہِ راست پہ آ جائے گی، کیونکہ اُس وقت کے رہبر قوم پرست تھے، وہ اپنی ذاتیات کو پسِ پشت ڈال کر قوم کا بھلا سوچتے تھے۔ مگر آج اس بھٹکی قوم کو سدھارنے کے لیے مسیحا کہاں سے آئے۔ مفاد پرست راہنما جو اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا وہ تاریکی کی رات کو کاٹ کر خوشحالی کا سویرا لائیں گے؟ کیا وہ ملک کی ڈوبتی کشتی کو پار لگائیں گے؟ اقبال غلامی میں بھی ناامید نہ تھا مگر آج آزاد فضاؤں میں بھی ہمارے پاس امید کی کوئی کرن نہیں۔