Mujhe Lootne Wale Mere Apne Hi Hain
مجھے لوٹنے والے میرے اپنے ہی ہیں
رمضان کا دوسرا روزہ، بازار سے سامان خریدنا تھا بارش بھی ہو رہی تھی یہ ہی سوچا کہ کالج سے واپسی پہ کچھ سامان لے لیا جائے۔ میں نے اپنے رکشے والے کو بازار کی طرف چلنے کا کہا، وہ خاموش رہا میں سمجھ گئی اس کا خاموش تقاضا اضافی پیسوں کا ہے میں نے اسے خود ہی کہہ دیا گھر پہنچ کر آج کا جتنا کرایہ بنے گا دے دوں گی۔ اس کے چہرے پہ تلخ تاثرات کی جگہ نرمی نے لے لی، کیونکہ رکشہ چلانے والے یہ وہ لوگ ہیں جو پیڑول کی قیمت میں ایک روپے کے اضافے پہ بھی کرائے بڑھا دیتے ہیں۔
2022 کے آغاز سے ہو بھی یہ ہی رہا ہے پیڑول کی قیمت میں اضافے کے ایک گھنٹے بعد ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔ خیر مجھے جنرل سٹور سے کچھ سامان خریدنا تھا سٹور جا کر احساس ہوا، ہر چیز کی قیمت میں پانچ روپے سے پچاس روپے تک اضافہ ہو چکا ہے۔ میں نے سٹور پہ بل ادا کرتے ہوئے مالک سے شکایت کی کہ ہر چیز کی قیمت بڑھا دی ہے وہ سنجیدگی سے بولا آپ کو بھی پتہ ہے رمضان ہے اور ہر شے پیچھے سے ہی مہنگی آ رہی ہے۔
میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ پیچھے، کہاں سے آ رہی ہیں؟ جو ہر ہفتے بعد اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں خریدنے والے بھی ہم پاکستان میں ہی رہتے ہیں اور اشیا بنانے والے بھی، پھر یہ آگے پیچھے کا جھمیلا کیا ہے؟ مگر اتنی لمبی بحث سنتا کون ہے؟ ڈنکے کی چوٹ پہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اور صارف وہ قیمت ادا کرنے پہ مجبور ہے۔ وہ بچارا کر بھی کیا سکتا ہے اناج پیدا کرنے والے ملک میں ہی آٹا دکانوں پہ دستیاب نہیں اور حکومت اسے مفت سڑکوں پہ دے رہی ہے۔
جو چیز بازار میں قیمت دے کر نہیں مل رہی وہ سڑکوں پہ عوام کو خوار کرکے دی جا رہی ہے اور یقین جانیے جو حکومت عوام کو چار چار گھنٹے سڑکوں پہ خوار کرکے آٹا دینے کا جو احسان کر رہی ہے وہ آٹا کھانے کے کم اور پھینکا جانے کے قابل زیادہ ہے اور اسی آٹے کے حصول کی خاطر تین چار لوگ دھکم پیل میں مر بھی چکے ہیں۔ اس بارے میں یہ پہلو یاد رکھیے کہ ضروری نہیں کہ ملک پہ حکمران جماعت کون ہیں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، یہاں ایک عام آدمی ایسے ہی خوار ہوگا۔
اور جو آٹا مفت دیا جا رہا ہے اگر وہی آٹا کم اور مناسب قمیت پہ دکانوں پہ رکھا جائے اور وہ کھانے کے قابل بھی ہو تو ہر شہری اسے باآسانی خرید سکتا ہے مگر نہیں دونوں فرقے (تاجر اور حکومت) عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ میں حیران ہوتی ہوں جس عوام کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے وہ عوام عمران خان کی گاڑی کے پیچھے پیچھے پاگلوں کی طرح دوڑ رہے ہیں مگر میں اس عوام کو کیا کہوں یہ وہ عوام ہے جو دودھ میں اس نیت سے پانی ملاتی ہے کہ معاوضہ زیادہ ملے گا ادویات میں ملاوٹ کی جاتی ہے اس سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ کسی بیمار کی جان بھی جا سکتی ہے۔
ہر کوئی دوسرے شہری کو لوٹ رہا ہے اس تعلیم کو بھلا کہ ہم پہ حقوق العباد کس حد تک فرض ہے۔ ملک پاکستان میں رمضان صرف اس لیے آتا ہے کہ اس مہینے میں جی بھر کر عام شہریوں کو لوٹ کر کمائی کی جا سکے اور اس بہتی گنگا میں سبھی ہاتھ دھونے میں بےتاب رہتے ہیں۔ ایک معمولی سبزی بیچنے والے سے لے کر بڑے بڑے پلازوں کے مالک تک اس لوٹ مار میں شامل ہیں مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔
کیونکہ مہینہ دو ہزار کمانے والے عام شہری سے لے کر دو کروڑ کمانے والا بزنس مین سبھی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور انہیں پوچھے بھی کون؟ بیورو کریٹ سے شروع ہو کر صدر اور وزیراعظم اور ان کے بعد تمام ماتحت طبقہ سارے ہی چور ہیں وہ کیسے چوری کا حساب مانگ سکتے ہیں؟ کیا کبھی ایک بڑا چور، چھوٹے چور سے سوال کر سکتا ہے کہ تم چوری کیوں کر رہے ہو؟
بالکل یہ ہی معاملہ ہمارے ملک کے چور حکمرانوں اور چور منافع خوروں کا ہے حکمران اس ڈر سے ان سے پوچھ نہیں سکتے کہ کہیں یہ سوال پلٹ کر ہم سے ہی نہ پوچھا جائے اور منافع خور اور لٹیرے دوکاندار، اور تاجر طبقہ بڑے چوروں کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معصوم اور بے گناہ ان شہریوں کو لوٹ رہے ہیں جو خاموشی سے ملک کے ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں اور ان ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ ہر ضرورت کے استعمال کی اشیاء کی اضافی قیمت بھی۔