Mujhe Haq Hai
مجھے حق ہے
اگر یہ کہا جائے۔ کہ ملک و قوم کی ترقی عورت کے بنا ادھوری ہے۔ تو اس نکتے سے انکار کسی ذی شعور کا جواب نہیں۔ کیونکہ یہ جواب عورت کی قابلیت اور صلاحیتوں سے انکار کے مترادف ہے۔ مگر سوال پھر اٹھایا جاتا ہے کہ عورت کا گھر سے باہر نکلنا خاص طور پر پاکستانی معاشرے میں فی الوقت ایک تنازعہ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف لبرل افراد کا گروہ جو خواتین کی آزادی کے لیے چلا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک ایسا طبقہ جو پردے کی سختی سے پابندی کا خواہش مند ہے۔ بحیثیت ایک عورت اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میرا جواب تو یہ ہی ہے۔ کہ عورت کا جسم لباس سے مکمل ڈھانپا ہو، ضروری ہے۔ کیونکہ جسم کے ابھار اور خدوخال کا کھلے عام نمایاں کرنا کسی طرح بھی روشن خیالی کا جواز نہیں۔
اب خواتین کی کچھ بنیادی ضروریات پہ بھی بات کریں۔ تعلیم مرد و عورت دونوں کی ضرورت ہے اب یا تو یہ کیا جائے کہ لڑکوں کو سکولوں میں بھیج دیا جائے اور لڑکی گھر میں ہی کسی فردِ خانہ سے تعلیم حاصل کر لے۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ آج کے دور میں۔۔۔۔ نہیں۔
اس کے بعد حکومتی اور نجی تمام تعلیمی اداروں کو پابند بنایا جائے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ سکولز قائم کیے جائیں۔ جو پلے گروپ سے اعلٰی درجے کی جماعتوں کی تعلیم کا احاطہ کریں۔ اور یہ خیال رکھا جائے کہ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے عملے میں کوئی مرد نہ رکھا جائے۔
مگر بطورِ یاد دہانی یہ بات شاملِ مضمون کروں گی کہ ملازمت کرنا عورت پہ فرض نہیں۔ یہ اُس کا اضافی کردار ہے جسے وہ انتہائی خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے۔ کیونکہ بابا آدم اور اماں حوا کو رب العزت نے جب جنت بدر کر کے زمین پہ بھیجا۔ تو حکم فرمایا کہ اے آدم تجھ پہ روزی کمانا فرض ہے یہ زمین تجھے تیرے خون پسینے کا حاصل دے گی۔ اور بی بی حوا کو حکم فرمایا کہ تو اس مرد کے تعلق سے اولاد پیدا کرے گی اور گھر، شوہر اور اولاد کی خدمت تیرا فرض ہو گا۔ تو پھر یوں تو عورت کو تعلیمی اداروں میں کام کرنے بھی نہیں نکلنا چاہیے۔ اور اعلٰی تعلمیی درجات جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہیں وہاں مرد حضرات کی علم و سوچ سے استفادہ لازم ہے۔
پھر کیا کیا جائے۔ بہتر یہ کہ لڑکیوں پہ تعلیم کے دروازے بند ہو جانے چاہیے۔ چلو یہ بھی مان لیا کہ اگر لڑکی یا عورت مکمل پردے میں کالج و یونیورسٹی چلی جائے تو کچھ ممانعت نہیں۔ درست جواب۔ لاک کر دیا جائے۔ مگر براہ مہربانی یہاں یہ راہنمائی فرما دی جائے کہ اگر ایک لڑکی نے اعلٰی حصولِ تعلیم کے بعد اگر گھر ہی بیٹھنا ہے تو اتنی تگ و دو کیوں؟ انجنئیرنگ، میڈیکل، لا یا ٹیکنالوجی میں ایم-اے، ایم-فل یا پی ایچ ڈی کر کے گھر کاچولہا جلانا اور بچے پیدا کرنا فرض ہے تو یہ فریضہ تو فقط انٹر کے بعد بھی ادا ہو جائے گا۔ اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں کم عمر اور کم عقل عورت شادی کے لیے زیادہ پسند کی جاتی ہے جو سسرال میں جا کے زیادہ سوال نہ اٹھائے۔
اس کے ساتھ عورت اور لڑکی کا گھر میں بھی پردہ لازم ہے۔ یہ جو ہمارا معاشرتی روایات کا حسن ہے۔ جسے ہم جوائنٹ فمیلی سسٹم کا نام دیتے ہیں ایک بڑے سے گھر میں تایا، چچا کے بچے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ پھوپھو، ماموں اور خالہ کے گھروں میں بےتکلفی سے آنا جانا، تمام کزنز کا اکٹھے گھومنا، تقریبات میں ایک ساتھ نظر آنا۔ یہ محبتوں کا فروغ اور رشتوں کا احترام۔۔ تو یہ تمام رشتے نامحرم ہیں۔ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے علاوہ تو ہر ایک سے پردہ لازم ہے ورنہ پھر وہی مرغے کی ایک ٹانگ، عورت پردہ نہیں کرے گی تو مرد کی شہوت بھڑکے گی۔ یہ اصول بھی لاگو ہوں۔ اس طرح سسر یعنی شوہر کا باپ بھی نامحرم ہوا۔ اُس کی خدمت بھی عورت پہ لاگو نہیں ہوتی۔
خیر یہ تو معاشرتی اصول ہوئے۔ بات ہو رہی تھی مکمل پردے کے ساتھ تعلیم کے حصول کے۔ اب اعلٰی تعلیم کے بعد گھر بیٹھنا ہے تو اس تعلیم کا کیا فائدہ۔ پھر وہی حال ہوا کہ مہنگا ترین سونا خریدا، خرید کر صندوق میں بند کر کے تالا لگا دیا۔ دس سال بعد اُس مہنگے زیور کو صندوق کا زنگ کھا گیا۔ اب دوبارہ وہی نکتہ، عورت پردہ کر کے شعبہ معاش میں آجائے کوئی اعتراض نہیں۔ اب سوال یہ کہ بہت ساری فیلڈز ایسی ہیں جہاں مکمل پردے کے ساتھ کام آسان نہیں۔ جیسے کہ ایک فیمیل ڈینٹیسٹ دانتوں کا علاج نقاب کر کے نہیں کر سکتی۔ وہ سرجری کرتے ہوئے ویل نہیں کر سکتی۔
تو پھر یا اعلٰی تعلیم کو اس معاشرے سے عورت کے لیے ختم کر دیں۔ یا یہ ہر جگہ کی بحث کہ عورت مکمل پردے کرے۔ تاکہ معاشرتی بےراہروی ختم ہو۔ کیونکہ ہر جگہ معاشرتی انتشار کی تان پردے پہ آ کر ٹوٹتی ہے۔ یہاں میں تشکیلِ پاکستان کی کچھ مجاہد خواتین کا ذکر اس مضمون کا حصہ کروں گی۔ کیونکہ جشنِ آزادی ہم ہر سال بےحد جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ اور اس جشن کی ہنگامہ آرائی میں یہ تک یاد نہ رکھتے کہ ماہ محرم چل رہا ہے۔
فاطمہ جناح مادرِ ملت جو اپنے بھائی جناب قائداعظم کا بازو بنی رہی۔ اُن کو میں نے اپنے بچپن سے جوانی تک ہر تصویر میں اپنے بھائی کے ساتھ مکمل لباس یعنی شرارہ قمیض میں فقط سر پہ دوپٹہ اوڑھے دیکھا ہے۔ یا تو قائد اعظم صاحب نے(انتہائی معذرت کے ساتھ، کیونکہ یہ دونوں، جناب قائد اور ماردِ ملت، میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔) کبھی اپنی بہن کو عبایا یا برقع پہننے، حجاب یا نقاب کرنے سے متعلق تاکید نہ کی ہو گی۔ مگر آفرین ہے اس خاتون پہ میرے اور آپ کے لیے آزاد فضا کے حصول میں لڑتی رہیں۔
نوٹ: اس کالم کو لبرلزم یا "میرا جسم میری مرضی" سے وابستہ کرنا زیادتی ہو گی کیونکہ یہ صرف عورت کی بنیادی ضرورت تعلیم سے متعلق ہے نہ کہ فحاشی کے فروغ سے۔ کیونکہ علیزہ شاہ جو اس آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بطور سیلبیرٹی اگر من پسند، اور فحاشی کو ہوا دیتا لباس پہننے کو عورت کا حق کہے گی۔ تو میں اس بیان کی اور ایسی آزادی کی مذمت کرتی ہوں۔