Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Mera Mulk

Mera Mulk

میرا ملک

کتابوں میں پڑھتے ہیں"پاکستان کا حصول اس لیے ضروری تھا تاکہ ایک ایسا خطہ ہو، جہاں مسلمان غیر اللہ کے ماننے والوں کے قہر سے محفوظ رہ سکیں، جہاں امن و سلامتی ہو، جہاں اردو زبان کو فروغ ملے، جہاں کوئی ہندو مسلمان کو گائے کے ذبیحہ پہ قتل نہ کرے، جہاں کوئی حکمران انگریزی نہ بولنے پہ کسی مسلمان کا استحصال نہ کرے، جہاں ملک کے حکمران خدا کا خوف رکھنے والے ہوں اور ملک وقوم کے وفادار ہوں، جہاں نو عمروں کی آبیاری دینی خطوط پہ کی جا سکے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے بچے راہ حق سے بھٹک کے نہ دین کے رہیں نہ دنیا کے"۔

پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا متحدہ ہندوستان کو تقسیم کر دیا گیا۔ پھر قیام کے ابتدائی سالوں میں ہی حکمران اقتدار کے لیے لڑنے لگے، کرسی درمیان میں اور سیاستدان اس کے اردگرد اسے چھینتے ہوئے ایسے مگن کہ قوم کو بھی قدموں تلے روندتے گئے اور پھر ان سیاست دانوں پہ فوج کا ڈنڈا چلا تو سبھی دم دبا کے خاموشی سے جہاں جگہ ملی کونوں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ انگریز اور ہندو قہقہے لگانے لگے کہ دیکھو ان کی حالت، یہ الگ ملک چاہتے تھے اب نوزائیدہ ملک کا حال تو دیکھو حکومت چلانا مشکل ہے ان نام نہاد حکمرانوں سے۔

اردو زبان کے محافظ اردو کو قبول کرنے سے انکاری ہوگئے جو کہتے تھے "ایک ایسی خطہ اراضی چاہیے جہاں اردو زبان کو فروغ ملے" جب الگ وطن ملا تو اردو کو سرکاری درجہ دینا مشکل ہوگیا، قوم علاقائی زبانوں کو مقام نہ ملنے پہ جھگڑنے لگی۔ کتابوں میں اردو زبان کو سرکاری مقام 1973 میں مل گیا مگر عام حالات میں سرکاری زبان کی نشت آج موجودہ دن تک انگریزی زبان کی دسترس میں ہے۔ ملک میں اردو کی بدحالی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ تعلیمی اداروں میں اسے پاؤں کی جوتی کے برابر سمجھا جاتا ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے کراچی کے ایک نجی ادارے میں بچوں کے منہ کو کالا اس لیے کیا گیا کیونکہ سکول کی حدود میں وہ اردو زبان بولتے ہوئے پائے گئے۔ اردو زبان کے محافظ ملک پاکستان میں ہی اردو زبان بولنا گناہ ہوگیا۔ جس ملک کی سرکاری زبان اردو ہے اسی ملک کے ستر فیصد سے زائد اداروں میں انٹرویو کے دوران اگر سوالات کے جواب امیدوار انگلش میں نہ دے تو اسے ملازمت کے اہل نہیں سمجھا جاتا۔ یہ ہے میرے ملک پاکستان میں اردو کا مقام۔

متحدہ ہندوستان میں منعقد انتخابات 1937 میں جب کانگریس بلند اکثریت سے جیتی اور کانگریسی حکومتی صوبوں میں مسلمان بچوں پہ مدرسوں کے دروازے بند کر دئیے گئے۔ ان کے لیے لازم تھا کہ وہ کرتا دھوتی پہنیں، مندروں میں تعلیم دی جانے گئی وہاں سنسکرت زبان بولی جاتی تھی، تمام بچے صبح کے وقت گاندھی کی مورتی کے سامنے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہوتے تھے۔

مسلمان دانشوروں کو نو عمروں کے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی۔ میں سوچتی ہوں یہ فکر اب کہاں گئی؟ اب تو بڑے ذوق و شوق سے انگریزی پڑھائی جا رہی ہے۔ انگریزی لباس بچوں کے سکول کی وردی کے طور پہ فخر سے زیب تن کروایا جاتا ہے، انگریزی طرز کے تمام کھیل سکولوں میں کھیلے جاتے ہیں، مخلوط طرز تعلیم عروج پر ہے۔ متحدہ ہندوستان میں علی گڑھ جو انگریزی طرز کا تعلیمی ادارہ تھا جہاں مخلوط طرز تعلیم بھی رائج نہ تھا اس ادارے کو فقط اس لیے قائم کیا گیا تاکہ مسلمان جوان کو معاشی استحکام بخشا جا سکے۔ جس ادارے میں پانچ وقت نماز کی پابندی بھی لازمی تھی اسی ادارے کے خلاف انگنت تحریکیں چلائی گئیں، کہ اسے بند کیا جائے تاکہ مسلمان نو نسل کی وابستگی دین سے قائم رہے۔ نو نسل کی اخلاقی و دینی افکار رکھنے والی تحریکیں آج کہاں رو پوش ہوگئی ہیں؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو گائے کے ذبیحہ پہ فساد برپا کرنے والا ہندو کہیں آباد نہیں، پھر مسجدوں پہ حملے کروانے والا کون ہے؟ نمازیوں پہ گولیاں برسانے والے غیر اللہ کے مرید کو ان پاک فضاوں میں رہنے کی اجازت کس سے ملی؟ کون ہے؟ جو تشدد کرتے وقت نہ عمر دیکھتا ہے نہ جگہ، اسکول ہو یا مسجد دہشت گرد کا قانون ہر جگہ یکساں ہے۔

اسلامی جمہوری ملک میں حکومت کرنے والے حکمران ایک اللہ اور رسول کی سنت کو مانتے ہیں تو قوم کیوں بد سے بدحال ہو رہی ہے؟ عام انسان کے خون پسینے کی کمائی کون لوٹ کر کھا رہا ہے؟ کون ہے جو ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے؟ اس ملک میں ہندو اور انگریز کو کیا اتنی آزادی ہے کہ وہ ایک مسلمان کو معاشی، معاشرتی لحاظ سے تباہ کر سکے؟ یا پھر اس کی جان و مال کا نقصان کر سکے؟ جہاں تک میری معلومات ہیں ملک کے اندرونی حدود میں تو ایسا ممکن نہیں تو پھر میری قوم ہر گزرتے دن کے ساتھ کیوں پستی کا شکار ہو رہی ہے؟

میرے پاکستانیو، ملک و قوم پہ ایک رحم بھری نگاہ ڈالو اور سوچ کے بتاؤ "کیا آج ہم بھارت یا برطانیہ سے کسی ایک معاملے میں بہتر ہیں؟"

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad