Mera Ghar
میرا گھر
میں کئی سالوں سے منائے جانے والے "خواتین عالمی دن" کی وجہ نہیں جان پائی۔ دوسرا سمجھ سے باہر پہلو عورت مارچ ہے۔ یہ دن کس مقصد کے تحت کم مناتے ہیں اور کیوں؟
مغرب والے اس دن کامیاب عورتوں کے انٹرویو نشر کرتے ہیں کیونکہ "عورت عالمی دن" اگر منایا جارہا ہے تو اسکی وجہ تو یہ ہی ہے کہ عورت صنف نازک ہوتے ہوئے بھی پہاڑ توڑنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اگر تو اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے تو بہترین ہے۔ ہمیں بھی اپنے ملک کی کامیاب خواتین کو میڈیا کے ذریعے متعارف کروانا چاہیے اور بہت سارے پروگرامز میں ایسا کیا بھی جاتا ہے مگر کیا سب عورت کی کاروباری بلندی اسکی کامیابی کی ضمانت ہے۔
میں کئی ایسی خواتین کے متعلق جانتی ہوں جو اپنے پروفیشن میں ایسی مہارت رکھتی ہیں کہ ان سے جیت پانا ناممکن ہے۔ دوسری طرف انہیں خواتین کی نجی زندگی میں اکیلا پن، مایوسی اور ناکامی ہے۔ اور یہ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ بسا اوقات عورت اپنا کیریئر بناتے ہوئے جب مرد سے چار قدم آگے نکل جاتی ہے تو کیا وہ احساس برتری کا شکار ہو جاتی ہے یا اس کا نصف حصہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں دو زندگیاں جو کبھی ایک تھیں ہمیشہ کے لیے الگ ہو جاتی ہیں۔ مگر وہ عورتیں کاروباری دنیا میں نام بنا لیتی ہے تو کیا ایسی عورتیں واقعی کامیاب عورتیں ہوتی ہیں جو ان کے انٹرویوز نشر ہونے چاہیے؟
عورت کی کامیابی تو یہ ہے کہ وہ ایسی نسل معاشرے کو دے جو اخلاقی، معاشی، معاشرتی ہر لحاظ سے باشعور اور باتہذیب ہو کیونکہ عورت کی تخلیق کی وجہ تو سکون تھی۔
رکیے! خاندانی زندگی خراب ہونے میں صرف عورت کو الزام دینا میرا مقصد تحریر نہیں، بلکہ بہت سارے معاملات میں بےچاری عورت مظلوم ہی ہوتی ہے ایسے بھی مرد حضرات دیکھنے میں آئے ہیں جو یہ کہتے پھرتے ہیں فقط عورت ہی کیوں، مردوں کا عالمی دن بھی مناؤ۔
خدا کی تخلیق کا نظام ہے کہ مرد جسمانی طور پہ عورت سے مضبوط ہے۔ لیکن اگر وہی کمزور عورت مرد کی طرح آٹھ گھنٹے دفتروں میں کام کرتی ہے مزدوروں کی طرح محنت کرتی ہے پائلٹ، انجنئیر، ڈاکٹر بن کر ملک کی خدمت کرتی ہے اور ان کاموں کے ساتھ بچے بھی پیدا کرتی ہے گھر بھی سنبھالتی ہے تو وہ قابل داد ہے۔ اور مردوں کے برابر نہیں، بلکہ اس سے زیادہ حقوق کی حقدار ہے اور اسے تمام سماجی حقوق بلا چوں و چرا دینے چاہیے۔ لیکن چونکہ وہ کمزور ہے اس لیے اسے آواز اٹھانے کا حق حاصل نہیں، طاقتور ہمیشہ خود سے کمزور کی برتری برداشت نہیں کرتا، اس طرح اسے اپنی طاقت کا تختہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ ہی حال ہمارے معاشرے کا بھی ہے۔
8 مارچ ہو یا اس کے بعد یا پہلے، کئی بے وقوفوں کی تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں میں بھی سودا سلف لاتا ہوں مجھے بھی برابر کے حق دو، لائن میں کھڑے ہو کے عورت کو جگہ دیتا ہوں مجھے بھی برابر کا حق دو۔ برابری کا حق مانگنے والو پہلے برابری کے فرض تو ادا کر لو۔ عورت کا انسانیت پہ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ وہ اولاد پیدا کرتی ہے نو ماہ ایک جان کو اپنی جان سے زیادہ اولیت ہے اگر کسی مرد کے اختیار میں یہ کام ہے تو وہ عورت کے حقوق میں سے اپنا حق لے سکتا ہے اس لیے خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے مردوں کا نہیں۔
مگر میں ہمارے ملک میں ہونے والی عورت مارچ سے بھی متفق نہیں۔ عورت کے بینادی مسائل کو پس پشت ڈال کر تمام آزاد عورتیں بنیر اٹھائے، سٹرکوں پہ ڈیرا جمائے کھیل تماشے کرتی نظر آتی ہیں۔
عورت کا مسئلہ آخر ہے کیا؟ عورت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں یہ ہے کہ اگر وہ اپنی خوشی سے غلامی کا طوق گلے میں ڈال لے تو وہ ایک خوش قسمت عورت سمجھی جاتی ہے۔ والد اور بھائی کی عزت کی پاسدار، شوہر کے حکم کی بجا آوری کرنے والی عورت کو ہی ہمارا معاشرہ عزت دیتا ہے ورنہ تو گھر سے باہر چلتی پھرتی عورتیں بقول منٹو گوشت کے لوتھڑے ہیں۔
خیر اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں۔ عالمی خواتین دن اور پاکستانی عورت مارچ بھی اس بنیادی مسئلے کی جانب آج تک متوجہ نہ ہوسکی جو ایک عورت کو مجبور بنا دیتا ہے اور وہ مسئلہ ہے عورت کا گھر، میں آج تک نہیں سمجھ سکی۔ عورت آخر کار کس گھر کی حقدار ہے وہ گھر جہاں وہ پیدا ہوتی ہے مگر وہ گھر تو پیدائش کے دن کے بعد سے ہی پرایا ہو جاتا ہے اس گھر کو چھوڑ کے جانا یہ ہی اصول ہے، شادی ہوئی، والدین اور خونی رشتے سارے پیچھے رہ جاتے ہیں اسی طرح والدین کا گھر بھی اجنبی دیس کے مترادف ہو جاتا ہے۔
اب جس گھر وہ بیاہ کے چلی گئی وہ گھر بھی تو اس کا اپنا نہیں، وہاں کئی بار اسے سنایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ اگر اس گھر کے اصولوں سے انحراف کیا تو جہاں سے آئی ہو، وہیں بھیج دی جاؤ گی۔ اس سنانے اور سمجھانے کا ایک مرحلہ جو مقدر طے کرتا ہے وہ ہے طلاق یا بیوگی۔
ایک بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا گھر کونسا ہے ایک عمر رسیدہ کنواری بیٹی کا گھر کونسا ہے؟
یہ مسائل کسی خاص مذہب سے وابستہ بیٹی کے نہیں، بیٹی ہندو کی ہو سکھ کی مسلمان یا عیسائی، یہ مسائل مشترکہ ہیں ہاں شائد جدید مغرب ممالک میں حالات مختلف ہوں"مگر مجھے تو اپنے ملک کی بیٹی کے گھر کا پتہ معلوم کرنا ہے"۔