Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Mehengai Aur Berozgari

Mehengai Aur Berozgari

مہنگائی اور بےروزگاری

پیٹرول 272 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ملک بھر میں فوری ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے منی بجٹ بھی مارکیٹ میں آ چکا ہے اور جون میں ہیوی بجٹ آنے کی پیشن گوئی ہو چکی ہے جس کے بعد ایک عام پاکستانی دنیا سے رخصت ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کی اونچائی جون سے پہلے ہی اس حد تک بڑھ جائے کہ جون کا انتظار کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، غریب اس سے پہلے ہی مر چکا ہو۔

عمران خان نیازی صاحب اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے ہر خطاب میں ایک جملہ بولنا نہیں بھولتے کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔ میں ان کی اس پیشن گوئی کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ملک کا مقبول ترین لیڈر اگر یہ جانتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے تو وہ باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل کیوں نہیں نکالتا یا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہو، ایک عام آدمی خوار ہو کے مر جائے تو اس کے بعد وہ تمام تر ذمہ داری پی ڈی ایم جماعتوں پہ ڈال دیں۔

اس بات سے انکار نہیں کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی تیس سالوں سے ملک کو کھا رہے ہیں انھوں نے ایک عام آدمی کا خون تک نچوڑ کر پی چکے ہیں اب اس عام آدمی کی ادھ مری لاش کو دفنانے کے لیے تحریک انصاف کا پارٹی لیڈر اس انتظار میں ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہو تو ان نیم مردہ لاشوں کو دفنایا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک پہ جب چور مسلط ہوئے تو تحریک انصاف کے اراکین کو اسمبلیوں میں بیٹھ کر ان کے ناقص فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانا تھی لیکن اس ملک کا ہر سیاسی لیڈر چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے ہو، قوم کا خیر خواہ نہیں۔

سارے کے سارے کرسی کی حرص میں یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں شامل ہیں ایک عام پاکستانی کی اس وقت کیا حالت ہے یہ چور، ڈاکو، جھوٹے اور دغا باز لیڈروں کو کیا پتہ کہ اس وقت ملک کا غریب کہاں کھڑا ہے؟ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بےروزگاری نے الگ کہرام برپا کر رکھا ہے۔ میں اخبارات میں یا سوشل میڈیا جابز سائیٹس پہ ملازمت کے نت نئے اشتہارات دیکھ کے سوچ میں پڑ جاتی ہوں کہ اگر ملازمت کے لئے اتنی جگہوں پہ آسامیاں خالی ہیں تو پھر لوگ کیوں رو رہے ہیں کہ نوکری نہیں ملتی؟

تو جناب نوکری دینے والے یا تو شوقیہ اشتہار بندی کر دیتے ہیں یا پھر تجربہ کر کے دیکھتے ہیں کہ ہمارے ادارے کی مارکیٹ میں ساکھ کیسی ہے؟ پہلے تو ایک خالی آسامی کے لیے دس لوگوں کے انٹرویو لیے جاتے ہیں موجودہ دور میں بےروزگاروں کا تماشا بنانے کا ڈھنگ بھی الگ ڈھونڈ کر رکھا ہے، ایک سیٹ کے لیے دو سے تین انٹرویو کیے جاتے ہیں پہلا انٹرویو ایک عام سیٹ والا مینجر کرتا ہے جو نمائندے سے ایک سے سو تک تمام ضروری معلومات لے لیتا ہے۔

اس کے بعد سی وی تمام معلومات کے ساتھ ایچ آر صاحب تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایچ آر مینجر صاحب دس سے پندرہ افراد میں سے تین یا چار کو فائنل انٹرویو کے لیے طلب کرتے ہیں، اس فائنل انٹرویو کے بعد ایک خوش نصیب کو یا تو چن لیا جاتا ہے یا پھر اس آسامی کو اسی طرح خالی رہنے دیتے ہیں اور اس خالی سیٹ کا کام پہلے سے موجود عملہ مل بانٹ کر کرتا ہے اور یوں اس آسامی کے خواہشمند دس سے پندرہ افراد کی امید خاک میں مل جاتی ہے اور پھر وہ اگلے ادارے میں خوار ہونے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔

بعض ادارے دو انٹرویو سے پہلے تحریری امتحان بھی لیتے ہیں تحریری امتحان لینے والے وہ ادارے ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس ویلیو کو کیش بھی ٹھیک ٹھاک کرواتے ہیں۔ ایک ایسا بےروزگار انسان جس کے پاس نہ رشوت کے لیے پیسے ہوں اور نہ سفارش اور نہ کسی معتبر آدمی کا نام کا سہارا تو اس کا بےروزگار ہونا موت سے بھی بدتر ہے۔ رشوت سرکاری محکموں میں کھلے عام لی جاتی ہے جسے سادہ لفظوں میں چائے پانی یا پیار محبت کہا جاتا ہے جبکہ نجی اداروں میں سفارش عام ہے۔

تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ملازمت کا حصول ایک کم پڑھے لکھے شخص کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے پڑھے لکھے شخص کو اپنی تعلیم کا صحیح امتحان ملازمت حاصل کرتے وقت دینا پڑتا ہے کہ اس نے سکول یا کالج میں کیا پڑھا ہے اوسط ذہانت والے طالب علم یا وہ شخص جو ایم اے پاس تو ہو مگر فر فر انگریزی بولنے سے قاصر ہوں، اس کے لیے برسر روزگار ہونا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، ہاں انگریزی سے نابلد ہوتے ہوئے وہ اٹھارہ سے پچیس ہزار کے درمیانی ہندسوں کی تنخواہ تو حاصل کر سکتا ہے لیکن اس سے آگے کی تنخواہ کے خواب دیکھنے اس پہ حرام ہے۔

غریب طبقے کے لیے تعلیم ہو یا ملازمت کا حصول یا پھر خوشحال زندگی کی سہولیات سارے ناممکن حقائق ہیں پھر جب کسی بےروزگار کی موت کی خبر چھپتی ہے تو معاشرے کا ہر فرد حکومت کو کوسنے لگ جاتا ہے کہ کرپٹ حکومت کا کیا دھرا ہے اگر یہ منہگائی نہ کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ مگر ایک بےروزگار کی خودکشی کے پیچھے صرف کرپٹ حکومت نہیں بلکہ اس کے قتل کا ذمہ دار معاشرے کا ہر فرد ہے خاص طور پہ ملازمت بانٹنے والے ادارے جو بےروزگاروں کو پیروں سے دھول کی طرح اڑاتے ہیں۔

Check Also

Rezgari

By Ruqia Akbar Chauhdry