Mard Ya Aurat, Qasoor Kis Ka?
مرد یا عورت قصور کس کا؟
کچھ دن پہلے وزیر اعظم عمران خان صاحب کا ایک بیان جو انھوں نے امریکہ میں انٹرویو کے دوران دیا۔ سوشل اور پرنٹ میڈیا پہ بحث کا موضوع بنا رہا۔ بیان مجھے بتانے کی ضرورت تو نہیں کیونکہ اس سے تمام عوام بخوبی واقف ہیں۔ مگر حوالے کے طور پہ لکھنا فرضِ قلم ہے۔ "اگر عورت کم لباس پہنے گی تو مرد کی ہوس بڑھے گی۔"
خیر یہ تو کھلے لفظوں میں ان کی مغربی تہذیب پر تنقید تھی۔ جس نے مغرب والوں پہ بالکل اثر نہیں ڈالا۔ کیونکہ ان کے یہاں یہ نہایت عام سی بات ہے۔ مگر اس کا براہ راست اثر ہمارے میڈیا پہ ہوا۔ سوشل میڈیا پہ ایک بحث چل پڑی۔ عورت پردہ کرے۔ فرض ہے۔ حکمِ دین ہے۔ ایک طرف لبرل گروہ نے واویلا مچایا۔ مردوں کو بھی نظر نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ بچیوں کا ریپ کرنے والوں کو بھی شامل کرو وغیرہ وغیرہ۔۔
خیر مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بحث فقط فالتو وقت گزارنے والوں کے لیے ہے جو بہت فارغ ہوتے ہیں وہ سوشل میڈیا پہ ایکٹیو ہو جاتے ہیں جن کی حلقہ احباب میں نہیں سنی جاتی۔ وہ سوشل میڈیا گروپس میں سنا رہے ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں تحریر کے بینادی نکتے کی جانب۔ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں لمحہ بھر میں بات دنیا کے کئی حصوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اب جہاں بات ہو ہماری معاشرتی روایات کی تو اس سے انحراف اور حمایت کرنے والوں کی بحث شائد اوروں کے لیے مرکزِ توجہ نہ ہو۔ مگر میرے لیے باعثِ حیرت ہے۔
کچھ دن پہلے ملالہ نے نکاح اور لیونگ ریلیشن سے متعلق بیان دیا۔ سوشل میڈیا کے جہادی الرٹ ہو گئے۔ ہر طرف اُس پہ تنقید ہونے لگے۔ جس کسی نے غلطی سے اس کی حمایت کی بھئی چھوڑ دو اسے، وہ نادانی کر گئی۔ اس جملے کے جواب میں نکاح کی حمایت کرنے والے دین اور معاشرتی رسموں کے پاسداروں کے کمنٹس قابلِ دید تھے۔ مدِ مقابل عورت ہے۔ بجائے بات ادب کے دائرے میں ہو۔ وہ مرد یا عورت جو دین کی تبلیغ کر رہے ان کے خود کے کمنٹس اخلاقی قدروں سے گئے گزرے تھے۔ ایسی گندی اور بےہودہ بحث ہوئی کمنٹس میں۔ کہ پڑھنے کے بعد یوں لگا کہ یا تو ملالہ کی حمایت کرنے والا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو چکا یا حمایت کرنے والے کا وجود تربیت و تمیز سے مکمل خالی ہے۔ نکاح کی حمایت کرنے والے کو ملالہ کا دلال، ملالہ کی چھوٹی بہن، ملالہ کی طرح ناجائز اور گندی نسل، کہا گیا یہاں تک کہ وہ لوگ جو معاشرے میں خود جائز مقام نہیں رکھتے وہ بھی سوشل میڈیا کے جہاد کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ کچھ نے حمایت کرنے والوں کو اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے مشورے بھی دئیے۔
کیا یہ دینی جہاد ہے جو خود ادب و تہذیب سے محروم ہے وہ معاشرتی قدروں کا رکھوالا بنا ہوا ہے۔
اسی طرح اب موجودہ دنوں میں، میں متفق ہوں کہ عورت خود کو مکمل لباس سے ڈھانپ کے رکھے۔ مگر میں اس سے بھی اتفاق نہیں کرتی کہ مرد کی ہوس عورت کی کم لباسی سے بڑھ جاتی ہے۔ یعنی مرد کے گناہ کا ذمے دار عورت کو بنا دیا۔ میں متفق نہیں کہ عورت کا پردہ کرنا مرد کی ہوس کا خاتمہ ہے۔
کیونکہ مرد کی گندگی ہوس تو با پردہ عورت کو دیکھ کے بھی بڑھنے لگتی ہے۔ گندی سوچ کی پیداوار مردوں کی ایک قسم جو راہ چلتی وہ عورتیں جو مکمل لباس پہنے اور چادر اوڑھے ہوتی ہیں ان کو بھی نہیں چھوڑتے۔ کبھی پرس چھین لیا۔ کبھی جسم کے حصوں کو ناپاک کیا۔ اور حیرت کی بات، بھرے بازار میں ایک مرد عورت کے جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگا کے چلا جاتا ہے۔ اردگرد کے سارے مرد اندھے ہو جاتے ہیں کوئی اسے پکڑ کر نہیں مارتا وہ کدھر سے آتا اور کدھر دفعان ہو جاتا ہے کسی کو نظر نہیں آتا۔ شرم کا مقام ہے ایسی قوم کے مردوں کے لیے جو عورت کو تحفظ نہیں دے سکتے اور انھیں پردے کادرس دینا اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں۔
پہلے معاشرے کے گندے ناسوروں یعنی مردوں کے بھیس میں جنگلی بھیڑئیوں کو تو معاشرے سے ختم کریں اور ایک بات ایک باشعور، تربیت یافتہ اور اچھی سوچ کا مالک مرد، عورت کو تحفظ دیتا ہے چاہے وہ اس کے لیے انجان ہی کیوں نہ ہو۔ اسے دیکھ کر اس کی ہوس نہیں بھڑکتی۔ وہ رشتوں اور عورت کے تقدس کو جانتا ہے۔
پہلے اس معاشرے کو حقیقی مرد تو دیں۔ جو محافظ بنیں۔ اور عورت کا احترام کرنا جانتے ہوں۔ تو میں درخواست کرتی ہوں سوشل میڈیا کے جہادیوں سے جو عورت کے پردے کی حمایت میں بولتے ہیں انھیں مرد کی ہوس کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ کم از کم گھر سے باہر نکلی باپردہ عورت کو توتحفظ دیں۔ پھر سوشل میڈیا پہ جہاد کریں۔