Main Aik Aam Shehri Hoon
میں ایک عام شہری ہوں
کیا اس حقیقت سے انکار ہے کہ میں اور آپ ایک غریب ملک کے شہری ہیں وہ غریب ملک جسے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے ناکوں چنے چبوائے جا رہے ہیں جسے اس وقت کوئی ملک دوست ہو یا دشمن، قرضہ یا مدد دینے کو تیار نہیں۔ میرے ملک میں بےروزگاری ہے، غربت ہے، بیماری ہے بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ ہے، رہائش اور صفائی و آلودگی کے مسائل عروج پہ ہیں، پینے کے لیے صاف پانی نہیں، کھانے کو اناج نہیں، پیڑول کی قیمتیں دن بدن آسمان چھو رہی ہیں، مانگنے والے گداگر قدم قدم پہ ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں۔
میرے ملک کا بچہ پور پور قرضے میں ڈوبا ہوا ہے اور جب وہ جوان ہوگا تو اس کی پوری کمائی ٹیکسوں کی ادائیگی میں کٹ جائے گی تاکہ ملک کا قرض ادا ہو سکے۔ ایسے سنگین حالات میں ملک کے سیاسی حکمران آپسی چپقلش میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ درمیان میں کرسی ہے اور اردگرد یہ سارے جھوٹے مکار نام نہاد سیاسی راہنما جنہیں ملک برباد کرنے والے کہنا زیادہ بہتر ہے کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں اور میرے ملک کے عام پاکستانی کو ہتھیار بنا رکھا ہے۔
ملک کی عدالتوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ان سیاسی راہنماؤں کے جھگڑے نپٹاتی رہیں، مقدمات کی سماعت سے پہلے ان کا سارا دن انتظار کرتے ہیں اور اگر ان راہنماؤں کا دل چاہے تو وہ تشریف لائیں، ورنہ سماعت مسترد کر دی جائے اور اگلے دنوں میں جب انہیں فرصت ہو تو عدالت بلایا جائے۔ ان عدالتوں میں بیٹھنے والے ججوں اور وکیلوں کی تنخواہ ایک عام آدمی کے خون پسینے کی تنخواہ سے ٹیکس کاٹ کر ادا کی جاتی ہے۔
یہ تمام ریاستی ادارے اور سرکاری ملازم ہماری محنت کی کمائی کا کھاتے ہیں اور تف ہے ہمیں ہی آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ہمارے پیسوں کے ٹیکس چوری کر کے اپنے کاروبار شروع کرتے ہیں اور مالدار بن کے ہمیں جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں۔ ایک عام آدمی، بےچارا سڑکوں پہ دھکے کھاتا ہے اور یہ امراء چاہے سرکاری عہدوں پہ فائز ہوں یا سابقہ ہو چکے ہوں، اس کے باوجود انہیں لگژری گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بیس پچیس یا اس سے بھی زیادہ مسلح جوان ہتھیار سمیت سیکیورٹی چاہیے۔
کیا یہ انصاف ہے؟ کہ ایک غریب، دو وقت کی روکھی سوکھی کھائے، لنڈے کی اترن خرید کر پہننے والا، اپنی خواہشات کو خود اپنے ہاتھوں دفن کرنے والا عام پاکستانی شہری کیا صرف اس لیے محنت کرتا ہے کہ اس کی کمائی پہ سرکاری ملازمین اور سیاست دان عیش کریں؟ مگر مضحکہ خیز نقطہء تو یہ ہے کہ اسی غریب پاکستانی شہری کے لیے انصاف کی فراہمی ایک خواب و خیال کے مترادف ہے۔ کیونکہ اسی عام پاکستانی کو انصاف نہیں ملتا بلکہ ظلم سہنے کے بعد منہ بند کرنے کے لیے یا تو ڈرایا جاتا ہے یا پھر چند روپوں کے عوض منہ باندھ دیا جاتا ہے۔
اس تحریر کو پڑھنے والا قاری چاہے مجھے لفافہ کہے یا جھوٹ لکھنے والی تجزیہ نگار، مگر سچ یہ ہے کہ جو بھی عام آدمی کی بات کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی راہنما کے کچے چھٹے کھولتا ہے اسے رشوت خور کا نام دے دیا جاتا ہے کیونکہ اس ملک میں عام آدمی کے لیے آواز اٹھانے والے کو بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ ایک عام آدمی کا اس ملک پاکستان میں پیدا ہونے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ غربت میں پیدا ہو، حکمرانوں کے تلوے چاٹ کے زندگی گزارے اور آخر میں گمنامی کی موت مر چاہے، چوں چرا کرنا اسکے حقوق میں شامل نہیں۔
یہ غریب سڑکوں کے حادثات کا شکار بھی ہوتا ہے پولیس اور قانون سے ڈر کے جیتا ہے، گندا پانی پیتا ہے، ملاوٹ والی غذائیں کھاتا ہے اور آخر میں اک روز خاموشی سے مر جاتا ہے لیکن میری کمائی سے ٹیکس لے کر عیاشی کرنے والوں کو اب جواب دینا ہوگا اس ملک کے اقتدار و قدرت رکھنے والوں سے میں استدعا کرتی ہوں کہ مجھ غریب شہری کو بھی ان حکمرانوں سا آرام چاہیے۔ ایک پر آسائش زندگی چاہیے، مجھے بھی وقت پہ انصاف چاہیے، مجھے بھی زندگی کی ضمانت چاہیے۔ مگر افسوس ہے مجھے ہی یہ حقوق حاصل نہیں۔