Maa Khudai Roop, Ya Sirf Aik Aurat
ماں خدائی روپ، یا صرف ایک عورت
بچپن سے سنتے آئے ہیں ماں باپ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی رشتہ مخلص نہیں۔ صرف انہی کی محبت ایسی ہے جس میں نہ تو کھوٹ ہے نہ غرض، مذہب اور معاشرہ دونوں نے ایک سی ہی بات کہی۔ اور یہ کسی مخصوص مذہب یا معاشرے کی تعلیم نہیں بلکہ سبھی مذاہب، اخلاقی قدریں، معاشرتی رواج یہ ہی تو کہتے ہیں کہ والدین سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ان کی دعائیں جنت کا دروازہ کھول دیتی ہیں مصیبت ٹل جاتی ہے برکتیں مقدر بن جاتی ہیں۔
ماں باپ کو برا کہنے والا جہنمی ہوتا ہے خدا نے ماں اور باپ دونوں کو انسانی رشتوں میں بلند مقام عطا کیا ہے مگر ماں کو عظمت و محبت میں خدا نے اپنا عکس قرار دے دیا اس کے قدموں میں جنت رکھ دی خدائے بزرگ و برتر نے جب انسان کی تخلیق کی تو اس نے عورت کو ایک خاص وصف سے نوازا اسے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت بخشی ایک عورت نو ماہ تک ایک قطرے سے مکمل بچہ بننے کے عمل تک ایک انسانی جان کو اپنے بطن میں پالتی ہے اور جب مخصوص وقت پہ وہ جان اس دنیا میں جنم لیتی ہے تو وہ عورت انسانی درجے سے خدائی درجے پہ آ جاتی ہے اپنا سکون و خوشی بالائے طاق رکھ کے اولاد کو ترجیح دینے والی عورت جنت قدموں تلے لیے گھومتی ہے۔
مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہر عورت جو ماں بنتی ہے اولاد پیدا کرتی ہے عظیم ہے، جواب کی تلاش رہے گی اور پڑھنے والوں سے التماس ہے کہ کمنٹ سیکشن میں اپنی قیمتی آرا سے نواز کے فیض یاب کیجیے۔ تقریباً سال پہلے کا ذکر ہو گا پڑوسی خاتون کافی دیر تک گھر آ کر بیٹھی رہی اسکے جانے کے بعد عقدہ کھلا کہ ہمارے ہی علاقے کی ایک لڑکی جس نے آج صبح بنا شادی کے ایک بچی کو جنم دیا۔ گھر والوں نے بہت پوچھا مگر اس نے زبان نہیں کھولی بچارے ماں باپ مارے شرم کے ہاسپٹل بھی لے جانا نہیں چاہتے تھے والدہ کو بھی تین ماہ قبل ہی پتہ چلا جس وقت پانی سر سے گزر چکا تھا۔
یہ سارا معاملہ و تعلق چونکہ ہماری سماجی و اخلاقی قدروں سے پرے ہے اور اسے نہ تو یہ ہمارا ذہن قبول کرتا ہے اور نہ معاشرہ۔ کیونکہ ایسے تعلقات کے لیے ہمارے معاشرے میں جگہ ہی نہیں ہے مگر اس کے باوجود بنا نکاح کے بچے پیدا ہوتے ہیں اور ان بچوں کا مقام یا تو یتیم خانے ہیں یا کوڑے کے ڈھیر اور بےرحم سڑکیں۔۔
خیر پڑوسی خاتون کے مطابق نومولود بچی کو رات کی تاریکی ہی میں کسی یتیم خانے کے دروازے پہ رکھ آیا گیا ہے اب سوال یہ ہے کیا یہ انتہائے بےرحمی نہیں کہ ماں جس کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ خود گیلے پہ سو جاتی ہے اور بچے کو آرام دہ بستر دیتی ہے وہ تمام رات جاگتی ہے کہ میری اولاد سکون سے سو سکے۔ وہ ہی ماں اگر خود تو گھر کے آرام اور تمام رشتوں کے دائرے میں رہے مگر اپنے ہی وجود کے حصے، اپنی ایک گھنٹے پہلے پیدا ہوئی بچی کو بے رحم دنیا میں تنہا لڑنے کے لیے چھوڑ دے، تو کیا وہ ماں بھی عظیم ہے جنت اس کے قدم بھی ایسے ہی چومے گی جیسے اس عورت کے جس نے اپنے سکھ کو اولاد کی خوشی پہ قربان کیا۔
مئی 2021 کا پہلا عشرہ، کالج کے بعد دوپہر واپسی کے بعد میں کھانا کھاتے ہوئے کرونا کی موجودہ صورتحال پہ تبصرہ سن رہی تھی کہ بنا سوچے ٹی وی چینل تبدیل کیا "نیوز چینل سٹی 42" کے ایک پروگرام میں مرد اینکر ایک خاتون سے تلخ کلامی کر رہا تھا تجسس بڑھا میں نے انٹرنیٹ پہ وہی پروگرام دوبارہ دیکھا تفصیلات کچھ یہ معلوم ہوئی کہ لاہور کی رہائشی ایک خاتون جس کے تین بہت خوبصورت اور تندرست بیٹے تھے گھریلو جھگڑوں (اور پتہ نہیں کیا کیا بےمعنی وجوہات وہ گنوا رہی تھی) سے تنگ آ کر اپنے بیٹوں کو زندہ جلا دیا پہلے خود اس نے نشے والا سگریٹ پیا اس کے بعد سوتے بچوں پہ پیڑول پھینکا اور ماچس کی تیلی سے آگ لگا دی تین میں سے ایک جو شائد جاگ رہا تھا وہ چپکے سے بستر سے نکل کر باہر چلا گیا اور اسے محلے والوں نے بچا لیا باقی دو چھوٹے جل کر خاکستر ہو گئے۔
اس خاتون کو تو مجھ سمیت کئی، انسان ماننے سے بھی انکار کریں گے ایسی درندگی، سفاکی، کہ ایک عورت نے اپنے ہی بچے جلا کر مار دئیے، حالات کچھ بھی ہوں مشکلات، پریشانیاں یہ سب انسانی زندگی کے حصے ہیں درندگی کا معیار دیکھے کوئی، خاتون نے خود کو ذرا بھی ایذا نہ دی جبکہ جو معصوم ابھی زندگی کے جھمیلوں سے نابلد تھے انھیں ختم کر دیا۔
اب کیا یہ عورت بھی ماں ہوتے ہوئے خدائی روپ کی دعوےدار ہو سکتی ہے کہ چونکہ ایک عورت ہوں خدا نے مجھے اولاد پیدا کرنے کی صفت بخشی ہے میں نے نو ماہ بچوں کو اپنے اندر زندگی دی تکلیف سہہ کر ان جانوں کو دنیا میں لائی، ان کی جنت کی دعوےدار میں بھی ہوں کیا ایسی مائیں بھی عظمت و بڑائی کے اعلٰی مرتبے کی حقدار ہیں۔
مذکورہ بالا فقط دو زندہ واقعے تھے اس کے علاوہ بھی کئی کہانیاں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں جن میں عورت نے ماں بن کر اولاد کو زندگی دی اور پھر اسی زندگی کو ایک عذاب بنا دیا اور کئی بار تو اسی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے مٹا دیا۔ پیشہ ور مانگنے والی خواتین دیکھ لیں سردی، گرمی کی شدت میں شیرخوار بچوں کو سڑکوں، کوچوں میں لیے بیٹھی ہوتی ہیں اکثر تو وہ بچے اپاہج، معذور یا دماغی مریض ہوتے تھے مگر پرواہ کسے، اگر غرض ہے تو صرف روپے کی۔
ان جیسی تمام ماؤں کی عظمت پہ اگر میں سوال اٹھاوں تو کیا میں غلط ہوں، اگر میں غلط ہوں تو پھر صحیح کیا ہے؟