Kya Tashadud Deen e Islam Ki Taleem Hai?
کیا تشدد دینِ اسلام کی تعلیم ہے؟
اب سفیدی ہمارے پرچم کی
ایک مسافر کے خون سے تر ہے
جمعے کے روز سیالکوٹ اسپتال میں ایک مردہ جلی ہوئی لاش لائی گئی جو ایک سری لنکن شہری "پریا نتھا کمارا" کی تھی اسپتال حکام کے مطابق وہ لاش جل کر خاکستر ہو چکی تھی مقتول سری لنکن شہری تھا شادی شدہ شخص اور ایک بچے کا باپ تھا سیالکوٹ کے علاقے وزیرآباد میں ایک نجی فیکڑی میں ایکسپورٹ منیجر کے منصب پہ فائز تھا وہ غیر مسلم تھا۔
اس شخص کو جلانے کے بعد عاشقانِ رسول ﷺکے دعوے داروں نے ویڈیو شوشل میڈیا پہ شئیر کی جس میں ان کے چہرے واضح طور پہ دیکھے جاسکتے ہیں اور انھوں نے بلاخوف اپنے نام بتائے "محمد طلحہ اور محمد فرحان ادریس۔" ان دونوں نے فخریہ انداز میں اپنے عمل کی وضاحت کی کہ اس سری لنکن شہری نے دیوار پہ لگے ایک صفحے جس پہ "یا حسین، یا حسین لکھا تھا اور ساتھ یہ بھی کہ کثرت سے درود شریف پڑھا کریں۔" دیوار سے اتار کے پھاڑ کر پھینک دیا جس پہ فیکڑی کے ان ورکرز نے منیجمنٹ سے بات کی کہ یہ معافی مانگے کہ اس نے غلطی کی ہے۔
ویسے مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اس سری لنکن نے تو گستاخی خدا کے نبی پیغمبروں کی شان میں کی مگر وہ معافی ان فیکڑی کے ورکروں سے کیوں مانگے کیا وہ خدا کے قائم مقام ہیں کہ جو شخص نیبوں کا گستاخ ہو گا وہ ان مذہب کے دعوے داروں کے سامنے اپنے جرم کی معافی مانگے گا پھر ان مذہب کے ٹھیکے داروں پہ منحصر ہے وہ اس گناہ گار کو معاف کریں یا سزائے موت سنا دیں بات کچھ مجھ کم عقل کے پلے نہیں پڑی۔
خیر سری لنکن منیجر نے شائد معافی نہیں مانگی ہو گی یا پھر کارخانہ کی انتظامیہ نے نے اس سے اس مدعا پہ بات نہیں کی ہو گی۔
فیکڑی کے ورکرز نے اس سارے معاملے کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیا نیوز چینلز کے مطابق جمعے کی صبح سے ہی کارخانہ میں یہ خبر گردش میں تھی کہ آج اس گستاخ کا معاملہ طے کر دیا گیا جائے لہذا ورکرز کے گروہ نے طے شدہ منصوبے کے تحت اس منیجر کو مل کر مارنا پیٹنا شروع کر دیا اس کے کپڑے پھاڑ دئیے جوتوں، لاتوں، گھونسوں، مکوں سے غرض جو، جس طرح داؤ چلا سکتا تھا وہ چلاتا رہا اور بالآخر اس تشدد کے نتیجے میں وہ شخص مر گیا پھر اس کی لاش کو گھیسٹ کر فیکٹری سے باہر لایا گیا اور بیچ سڑک میں لا کر اسے اس طرح جلایا گیا کہ وہ بالکل خاک ہو گیا اس دوران اس جلاؤ کی ویڈیوز بنائی گئیں، سلفیاں لی گئیں، لبیک لبیک یا رسول اللہ کے نعرے جوش و خروش سے لگائے گئے عوام کا ایک جم غفیر اس جگہ موجود تھا مگر سارے ہی تماشے کو دیکھ کر تالیاں بجانے والوں جیسے تھے۔
اس کے بعد اس واقعے کے دو مرکزی کرداروں نے ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا اور نہایت ناز و تکبر سے اپنے عمل کی وضاحت کی کہ گستاخ کو ہم نے واصل جہنم کر دیا، ویسے یہ بیان بھی مجھے سمجھ نہیں آیا جنت اور دوزخ بجھوانے کا ذمہ خدا نے انسان کے سپرد کب کیا؟ یہ معاملہ تو اس نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا کس کو جنت دینی ہے اور کس کو دوزخ، اس راز سے تو انسان روز اول سے ہی بے بہرہ رہا ہے اور مزید ان ورکرز نے یہ بھی واضح کیا کہ آئندہ بھی کسی نے ایسی جرات کی اور ان کا بھی ایسا ہی حال کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ قابل غور یہ بات بھی ہے کہ ریسکیو عملے کے بیان کے مطابق وہ جائے وقوعہ پہ گیارہ بجے کے قریب پہنچ گئے تھے مگر ہمارے ملک میں قانون کی بےبسی دیکھیے یا اسے لاقانونیت کی جیت کہیے پولیس بیان کے مطابق وہ اس مشتعل ہجوم کو روکنے سے قاصر تھی، مضحکہ خیز بات لگتی ہے پولیس جسے تشدد کو روکنے کے لیے خبر دی گئی مگر وہ جائے وقوعہ پہ پہنچ کر بھی گستاخ رسولﷺ کو نشانہ عبرت بنتے دیکھتی رہی نہ تو ان کا اسلحہ کسی کام آیا نہ ہی قانون کی وردی کا رعب کسی کے سر چڑھا عاشقان رسول نے طے شدہ منصوبے کے مطابق گستاخ کو سزا دی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے واقعے کی مذمت کر دی یے بیان بھی دے دیا ہے کہ وہ اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور تمام ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے گا۔ کیا وزیراعظم صاحب کا بیان سری لنکن شہری کو دوبارہ زندگی دے سکتا ہے کیا ان گرفتاریوں کے بعد کوئی اس بات کی گارنٹی لے سکتا ہے کہ آئندہ وقت میں ملک پاکستان میں دوبارہ ایسا واقعہ پیش نہیں آئے گا دوبارہ کسی غیر مسلم کو ناموسِ رسول کے الزام پہ بنا صفائی سنے، بنا مقدمہ چلائے سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
آسیہ کیس ہو، یا فرانس کے سفیر کا معاملہ۔ صرف محبت رسول ﷺکے دعوے دار پاکستان مسلمان ہی ہیں کیونکہ احتجاج یا شدت پسندی میں دوسرے مسلمان ممالک خاموش بیٹھے ہیں، کیا مذہب اسلام کی ٹھیکے داری اللہ رب العزت نے ملک پاکستان کے نام نہاد مسلمانوں کو دے رکھی ہے جو نہ تو قتل کو جرم مانتے ہیں اور نہ غیر مسلموں کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کا علم رکھتے ہیں۔