Jabri Gumshudgi
جبری گمشدگی
* میں خود کو بیوی سمجھوں یا بیوہ۔
* میں ہر روز شام کو دروازے پہ بیٹھ کے اپنے بیٹے کا انتظار کرتی ہوں۔
مذکورہ بالا یہ بیانات دو الگ الگ خواتین کے ہیں جن میں سے ایک بدنصیب ماں ہے اور دوسری بد قسمت وہ عورت جسے اس وقت یہ بھی معلوم نہیں، کہ وہ خود کو بیوی کہے یا بیوہ۔ مگر ان دونوں خواتین کا دکھ مشترک ہے، دونوں ایک ہی کرب سے گزر رہی ہیں۔ ایک اپنے بیٹے کو دیکھنے کی آس میں بے چین ہے اور دوسری اپنے شوہر کے انتظار میں بےقرار۔ جو عرصے سے لاپتہ ہیں اور انکی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ فقط دو گھرانوں کی داستان نہیں بلکہ سینکڑوں، ہزاروں کئی ایسے خاندان ہیں جو اپنے پیاروں کی تلاش میں جا بجا مارے مارے پھر رہے ہیں۔ مگر انھیں جبری گمشدگی کی پاداش میں نہ تو قانون سے مدد مل رہی ہے اور نہ ہی معاشرتی اداروں کی طرف سے انصاف۔
جبری گمشدگی ایک ایسے جرم کی اصطلاح ہے جس میں کسی بھی شخص کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر غائب کر دیا گیا ہو۔ دن دہاڑے بزور طاقت اپنے گھروں، دفتروں، دکانوں سے اٹھائے جانے والوں اور انکے اہل خانہ کو قصور تک معلوم نہیں ہوتا کہ آخر ان پہ کیے جانے والے ظلم کی وجہ کیا ہے؟ بسا اوقات تو اپنے پیاروں کے انتظار میں ان کی پوری عمر بیت جاتی ہے۔
مدت سے لاپتہ ہے، اب تو خدا جانے کیا ہوا
پھرتا تھا ایک شخص جو دیوانہ یہاں وہاں
ہم نے ترے بغیر بھی جی کر دکھا دیا
اب یہ سوال کیا ہے کہ پھر دل کا کیا ہوا
وہ جو زمین پہ چلتے پھرتے تھے اپنے پیاروں کے ساتھ ہنستے روتے، کھیلتے گاتے جی رہے تھے لمحوں میں یہ کیا ہوا کہ چلتا پھرتا وجود ایک "لاپتا شخص" کی فائل میں تبدیل ہو گیا؟ کون ہے جو اس گمشدہ کا پتا بتائے گا؟ مظلوم لواحقین کی آہ و بکا سے تو لگتا ہے شائد کوئی نہیں۔
پاکستان میں جبری طور پر لاپتا ہونے کے واقعات ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے بعد کئی افراد رہا کیے جا چکے ہیں تاہم متعدد افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔
لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں خفیہ اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم سیکیورٹی اداروں نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔ پاکستان میں گمشدگی کے واقعات تمام ملک سے ریکارڈ کیے گئے ہیں مگر گمشدہ افراد کی تعداد بلوچستان اور پختونخوا میں زیادہ ہے۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ خیبر پختونخوا میں قائم حراستی مراکز میں کئی گمشدہ افراد کو رکھا گیا ہے جن کے بارے میں ان کے لواحقین کو اطلاع نہیں دی جاتی۔ تاہم اب انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی پر امید ہیں کہ آنے والے زمانہ قریب میں اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ کا کہنا ہے کہ امید یہ کی جاتی ہے ملک کے طاقت ور اداروں کا احتساب بھی جلد ممکن ہو گا۔
مقتدر اداروں کو سوچنا چاہیے کہ دہشت گردی کے ان کاموں سے دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ مہذب ملک میں کیا لوگوں کو اس طرح اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے؟ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف شکایت درج کروائی جائے، عدالت میں پیش کرکے الزام ثابت کیا جائے۔ مگر نہیں، طاقت ور ادارے اور افراد ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ وہ اپنے پسند کی سزا منتخب کرتے ہیں۔
اس مسئلے کی وجہ سے لوگوں کا عدالتوں پر بھی اعتماد ختم ہو رہا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار میں جبری طور پر گمشدہ افراد کی تعداد بہت کم بتائی جاتی ہے جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے بلوچ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ایسے افراد کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے لیکن اس دعوے کو کئی غیر جانبدار ادارے قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے۔
انصاف نہ ملنے پہ جبری گمشدگیوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کے مؤثر پن کے بارے میں سوالات جنم لیتے ہیں۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی ایسی طاقت نہیں، جو جبری گمشدگی کے جرم کو روک سکے اور نہ ہی عوام کے سامنے یہ بات لا سکے کہ آخر اس جبر و ظلم کے پیچھے کونسے ادارے اور ایجنسیاں کارفرما ہیں اور جبری گمشدگی سے وہ کیا فائدہ حاصل کرتے ہیں؟ کیا قانون اس قدر بےبس ہے جو مظلوم اور بے گناہوں کو انصاف نہیں دے سکتا یا سب کچھ جانتے ہوئے قانون آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
ہر سال 30 اگست کو ان لاپتا افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد اس جرم کی شدت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کے کرب اور ان کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ یہ دن عالمی سطح پر ماضی میں جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کی بازیابی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اس غیر قانونی عمل کی روک تھام کی عالمی کوششوں کو اجاگر کرتا ہے۔
اس کے علاوہ مئی کا آخری ہفتہ بھی بین الاقوامی سطح پر جبری گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے مخصوص کیا گیا ہے اس ہفتے میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انھیں یہ یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ اس مشکل وقت میں معاشرتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان میں بھی اس موضوع پہ مذاکروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پر امن احتجاج بھی کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق سے متعلق ماہرینِ قانون کی عالمی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے پاکستان میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے لیے عالمی معیار کے مطابق کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی تنظیم کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم کیے جانے والے جبری گمشدگی کمیشن کی میعاد ختم ہو رہی ہے۔ حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے متعلقہ افراد کی مشاورت سے ایک جامع اور مربوط کمیشن بنانے کی ضرورت ہے جو عالمی معیار کے مطابق ہو۔
حکومتِ پاکستان نے 2011 میں مبینہ طور پر جبری طور پر گمشدہ افراد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری بھی کمیشن تشکیل دیا تھا جو اب تک سینکڑوں مقدمات نمٹا چکا ہے۔ تاہم آئی سی جی کی جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس کمیشن کے ذریعے متعدد افراد بازیاب بھی ہوئے ہیں۔ لیکن کمیشن ایسے واقعات میں ملوث عناصر کا تعین کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کمیشن کے مینڈیٹ میں یہ شامل تھا کہ وہ ان واقعات میں مبینہ طور پر ملوث افراد یا اداروں کا بھی تعین کرے۔
عالمی ماہرین کی تنظیم کے ایک عہدیدار تنطیمائن سیڈرمین کا کہنا ہے کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک نو برسوں میں کمیشن کسی کو بھی ایسے واقعات میں ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی قوانین کے تحت جبری گمشدگی ایک جرم ہے اور تمام ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں کے الزامات کی فوری اور غیر جانبدرانہ تحقیقات کرائیں۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی کمیشن آف جیوریسٹس (آئی سی جے) انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری بین الاقوامی تنطیم ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے نامور سینئر ججز، وکلا اور ماہرین قانون شامل ہیں، جو انسانی حقوق کے معیار کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔
پاکستان میں لاپتا افراد سے متعلق انکوئری کمیشن کے بارے میں عالمی تنظیم کی رپورٹ ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد کی تعداد میں اضافے کی شکایات عام ہیں۔
موجودہ وقت میں سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کو 10 مارچ تک لاپتا افراد کے اہل خانہ کے لیے معاوضے کی پالیسی سے آگاہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ مگر متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے سے زیادہ ضروری ان کے اپنوں کی بازیابی ہے جنھیں پھر سے زندہ دیکھنے کی حسرت ہر روز ایک نئے جوش و ولولے سے جنم لیتی ہے اور اسی دن کے ختم ہونے پہ مایوسی ان کے اندر کی امید کو مار دیتی ہے۔
میں نے مانا ایک نہ اک دن لوٹ کے تو آ جائے گا
لیکن تجھ بن عمر جو گزری کون اسے لوٹائے گا
ہجر کے صدمے اس کا تغافل باتیں ہیں سب کہنے کی
کچھ بھی نہ مجھ کو یاد رہے گا جب وہ گلے لگ جائے گا
خواب وفا آنکھوں میں بسائے پھرتا ہے کیا دیوانے
تعبیریں پتھراؤ کریں گی جب تو خواب سنائے گا
کتنی یادیں کتنے قصے نقش ہیں ان دیواروں پر
چلتے چلتے دیکھ لیں مڑ کر کون یہاں پھر آئے گا
باد بہاری اتنا بتا دے سادہ دلان موسم کو
صرف چمن جو خون ہوا ہے رنگ وہ کب تک لائے