Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Inteha Pasandi Ke Firogh Mein Social Media Ka Kirdar (2)

Inteha Pasandi Ke Firogh Mein Social Media Ka Kirdar (2)

انتہا پسندی کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کردار (2)

سب سے پہلے موضوع بحث یہ مدعا ہے۔ کہ آخر نوجوانوں میں انتہا پسندی کی وجوہات کیا ہیں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بےراہروی کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب اُس کے بڑھنے کے اسباب پتہ ہوں گے نفسیات بتاتی ہے۔ کہ نوعمر بچوں میں انتہا پسندی کی سب سے بڑی وجہ انھیں مناسب توجہ کا نہ ملنا ہے۔ بچے کو ضرورت ہوتی ہے۔ پیار و توجہ کی اور اگر والدین یا گھر کے بڑے کسی بھی وجہ سے بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ تو وہ اس روئیے سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں جس کا اثر براہِ راست اُن کی شخصیت پہ پڑتا ہے۔ والدین کا بچوں کی دوستیوں کے بارے میں لاعلم رہنا اُن کی تعلیمی و سماجی سرگرمیوں میں دلچپسی نہ لینا انتہا پسندی کی جانب لے جاتا ہے۔ یہ انتہا پسندی کسی بھی جذبے کی ہو سکتی ہے۔ جو انھیں نارمل روئیے سے دور کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں زیادہ تر تعلیمی ادارے یا تو کاروبار کھول کر بیٹھے ہیں۔ جو صرف کتابوں کا علم سکھاتے ہیں۔ نوعمر پودوں کو کیسے پروان چڑھایا جاۓ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اور رہی سہی کسر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔ والدین کی بے توجہی اور تعلیمی اداروں کا غیر ذمے دار روئیے کے بعد بچے کی باطنی خوشی اور سکون کی تلاش میں سارا سارا دن کمپیوٹر، لیب ٹوپ اور موبائل کی دنیا میں کھو جاتے ہیں جو انھیں اردگرد کی بہت ساری پریشانیوں سے دور لے جاتے ہیں۔

ہم خود ہی اپنے ہاتھوں اپنی نسل کشی کر رہے ہیں۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی جنسی لذت سوشل میڈیا کی مرہونِ منت ہے۔ ایک کے ساتھ تعلق ختم ہوتا ہے۔ اور دوسرے ساتھی کو ڈھونڈنے میں زیادہ توقف نہیں کرنا پڑتا۔ جنسی تعلقات کی آگاہی سوشل میڈیا پہ بآسانی اور مفت دستیاب ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوۓ والدین اِس بات سے انجان ہوتے ہیں۔ کہ ساتھ والے کمرے میں بیٹھا اُن کا بیٹا یا بیٹی موبائل یا لیب ٹاپ پہ کیا کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی رسائی اب تقریباً ہر گھر میں میسر ہے۔ پھر کمپیوٹر اور لیب ٹاپ کا استعمال بھی گھروں میں عام نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو کم از کم موبائل جیسی سہولت تو ہر عام و زد کی پہنچ میں ہے۔ ہر انسان اّن ایجادات کو اپنی ذہنیت کے مطابق بروۓ کار لا رہا یے۔ مگر جرائم اور جنسی تعلقات سے متعلق أسانی سے ملنے والی تمام معلومات نوعمروں کی تباہی کا سامان ہے۔ جن ہاتھوں میں کتابیں اور کھلونے ہونے چاہیے۔ وہاں ہمہ وقت موبائل فون انٹرنیٹ سمیت وقت گزاری کے لیے تھما دیا جاۓ۔ تو کس رنگ میں کھِل کر سامنے آۓ گی۔ یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر ذی شعور کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں۔

اسرائیل جیسا ملک جس کی آبادی پاکستان سے کئی گنا کم ہے۔ جس کو ابھی تک دنیا کے کئی ممالک تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اگر آپ وہاں نوزائیدہ نسل کی تربیت اور پرورش کے انداز سے آگاہ ہیں۔ تو سمجھ سکتے ہیں کہ خاموشی سے پوری دنیا کو مانیٹر کرنے والا یہ ملک کیوں ترقی کی بلندیوں پہ ہے۔ وہاں بچے کی پیدائش سے لے کر برسرِ روزگار ہو جانے تک خاندان کے تمام افراد اساتذہ سمیت ملکر اُس کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری لیتے ہیں۔ وہاں بچوں کو ذہنی تفریح کے لیے موبائل فون یا لیب ٹاپ کی بجاۓ ریاضی و جغرافیے کی مشقیں حل کروائی جاتی ہیں۔ تاکہ اُن کی ذہنی صلاحیتیں تیزی سے پروان چڑھیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چھے ماہ کا بچہ تمام گھر سے مانوس ہو یا نہ ہو والدہ کا اُسے فیڈر پلاتے یا غذا کھلاتے ہوۓ موبائل کے دھیان لگا دینا اُس کی سماعتوں کو الیکڑانک ڈیوایس سے مانوس ضرور کر دیتا ہے۔ تو جس ملک میں بچوں کی تفریح موبائل فون کی ایپس میں پوشیدہ ہوں وہاں انتہا پسندی کا پھیلاؤ کیونکر روکا جا سکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں زیادتی اور تشدد کے جتنے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ اور جس طریقے سے سوشل میڈیا پہ وائرل ہو رہے ہیں جرم کو کم کرنے کی بجاۓ بڑھانے کا موجب بن رہے ہیں۔ افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ سب کچھ وائرل ہو جانے کے بعد مجرم کو سزا نہیں متاثرہ خاندان یا فرد پوری دنیا کے سامنے آ جاتا ہے۔ اگر ملٹی میڈیا اتنا ایڈوانس ہے۔ کہ کسی چھپے گوشے میں ہوئی زیادتی و تشدد کو دنیا کے سامنے لا سکتا ہے۔ تو مجرم کی عبرت ناک سزا بھی دنیا کے سامنے آنی چاہیے۔ تاکہ لوگ گناہ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔ کہ ہمارا انجام کیا ہو گا۔ مگر ہوتا اِس کے برعکس ہے۔ جرم کی وضاحت کھلے بندوں ہو جاتی ہے۔ مگر مجرم کا دور دور تک نشان نہیں ملتا۔ اور آخر میں معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے۔ بچ جاتا ہے۔ فقط ایک قصہ کہ فلاں مرد یا عورت کے ساتھ یہ حادثہ اِس علاقے میں پیش آیا تھا مجرم اُسی دیدہ دلیری سے ایک جا سے دوسری جگہ گھومتا پھرتا رہتا ہے۔

دیکھنے اور سننے والوں اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ اس ملک میں گناہ کرنا بہت آسان ہے۔ جب چاہو جیسے چاہو کسی پہ بھی ظلم ڈھا لو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور جب کوئی پوچھنے والا نہیں تو اچھے کام کی جزا اور برے کی سزا کون دے گا۔ پھر ایسے واقعات کو تو دبا دینا چاہیے۔ جب انصاف نہیں ملتا تو سوشل میڈیا کا چنگاری کو شعلہ بنا دینا بےوقوفی نہیں۔ یا ایسے واقعات کی تشہیر کر کے دوسرے تشدد پسند ذہنوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ طریقے بتاۓ جاتے ہیں۔ کہ آؤ دیکھو اور سیکھو گناہ کرنا کس قدر آسان ہے اور پھر سزا سے بچ نکلنا اُس سے بھی آسان۔

میرا سوال ہے۔ حکومتِ وقت اور اس معاشرے کے ٹھیکے داروں سے بلکہ ہر باشعور انسان سے کہ اس طرح کیا ہم اپنی نسلوں میں جدیدیت پروان چڑھا رہے ہیں؟ یا انھیں گمراہ کر کے انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں؟ یہ جدید سائنسی سہولیات اُن کی شخصیت اور ذہنوں کو اعلی قدروں کا راستہ دکھا رہی ہیں یا پھر اُن کی ذات کو مسخ کر رہی ہیں؟

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جہاں ہمیں پوری دنیا سے جوڑے ہوۓ ہے۔ وہیں یہ دونوں ایجادات ہماری نسلوں کو لیے تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہیں۔ ضرورت اس سوچ کی ہے۔ کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بچانے کے لیے کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ اس پہ سوچیے۔ ضرور ایسا نہ ہو کہ پھر سوچنے کا موقع نہ ملے اور ہمارے بچے اور جوان انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ جائیں۔

Check Also

Nineties Ke Ashiq

By Khateeb Ahmad