Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Inteha Pasandi Ke Firogh Mein Social Media Ka Kirdar (1)

Inteha Pasandi Ke Firogh Mein Social Media Ka Kirdar (1)

انتہا پسندی کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کردار (1)

ٹیلی فون ایجاد کرنے والے گراہم بیل نے کب سوچا تھا۔ کہ ایک وقت ایسا بھی آۓ گا۔ جب اُس کی ایجاد ہر خاص و عام کی بنیادی ضرورت بن جاۓ گی۔ اور اگر آج کے دور میں یہ کہا جاۓ۔ کہ انسان کے لیے کھانا پینا اتنا ضروری نہیں جتنا اُس کے ہاتھ میں موبائل فون کا ہونا ضروری ہے۔ تو یہ غلط نہیں کیونکہ یہ ایک واحد چیز ہے۔ جس کی ضرورت و اہمیت ہر خاص و عام کے لیے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ٹیلی فون سیٹس پہ آۓ دن تجربات ہوتے رہتے ہیں۔

اور کیا کبھی کسی نے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے سوچا کہ چند بٹن دبانے سے معلومات کا سمندر کیسے ہمارے سامنے پلک جھپکتے ہی آ موجود ہوتا ہے؟ آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اب کوئی بھی معلومات کسی بھی انسان کی دسترس سے دور نہیں ہے۔ ہم اپنے پیاروں سے بات کرتے ہیں، تحریری پیغام بھیجتے ہیں، وڈیو کال کرتے ہیں، تصاویر ارسال کرتے ہیں، خبریں پڑھتے اور دیکھتے ہیں، بہت سی کتابیں گانے فلمیں ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، ریڈیو سننے اور آن لائن گیم کھیلنے کے علاوہ چیزوں کی بکنگ کرتے ہیں، یہ فنگر ٹپس پر دستیاب ہوتا ہے۔ اس کا واحد بہترین ذریعہ ہے انٹرنیٹ۔ اب یہ آیا کہاں سے، کس نے بنایا؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ دراصل یہ کئی ذہین انسانوں کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انٹرنیٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے پچپن سال پہلے کی بات ہے یعنی میں جے سی آر لائک نامی سائنسدان تھے جنہوں نے اس کی بنیاد انٹرگلیکٹک نامی نیٹ ورک بنا کر رکھی اور یوں یہ معجزاتی کرشمہ ہماری دنیا کا حصہ بن گیا۔

اور یوں ان عظیم لوگوں کی ایجادات کی وجہ سے نہ صرف سائنس کی دنیا، بلکہ ہر شعبہ زندگی میں تہلکہ مچا دیا۔ آج کے وقت آپ کسی سے اپنے موبائل کے متعلق بات کریں۔ اور اُسے کہیں کہ اس فون پہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں تو پہلے وہ آپ کو حیرت سے دیکھے گا۔ آپ کے خد و خال سے آپ کی مالی حیثیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے گا۔ اور بعد میں آپ کے فون کو بے کار اور فالتو کہنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا۔ یا پھر آپ کسی سے گفتگو کے دوران انٹرنیٹ کے متعلق لاعلمی کا اظہار کریں۔ اور اُسے کہہ دیں کہ آپ انٹرنیٹ کے استعمال سے قاصر ہیں تو آپ کے بارے میں اُس کی راۓ یہ ہو گی کہ آپ جاہل یا ان پڑھ ہیں۔ جو انٹرنیٹ کے استعمال اور ضرورت سے ناواقف ہیں بلکہ انٹرنیٹ کو اہمیت دینا صرف تعلیم یافتہ طبقے تک ہی محدود نہیں بس انٹرنیٹ آپ کی پہنچ میں ہونا چاہیے۔ انٹرنیٹ سے ملنے والی سہولیات اور فوائد سے کون ذی شعور انکار کر سکتا ہے۔ یہ وہ ایجاد ہے جس سے انسان ایک بند کمرے میں بیٹھا تمام دنیا کی خبر رکھ سکتا ہے اُس کے اردگرد لوگوں کا ہجوم ہو یا نہ ہو وہ ہر لمحے انجواۓ کر سکتا ہے دفتری اور کاروباری معاملات میں انٹرنیٹ کے فوائد تو مت پوچھیے۔

آج دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پچھلی چند دہائیوں میں جدید ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا بھرکے لوگ ایک دوسرے کے نزدیک آ گئے ہیں جہاں صرف کل آبادی کے دو فیصد لوگ ہی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، دو ہزار کے بعد انٹرنیٹ کی دنیا میں کچھ ایسی سوشل میڈیا سائٹس سامنے آئیں جنہوں نے ناصرف لوگوں کو ایک دوسر ے سے قریب کر دیا بلکہ ہزاروں کلومیٹرز کے فاصلوں کو بھی ختم کر دیا۔ فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، ٹوئٹر اور سنیپ چیٹ جیسی سائٹس نے مرد و خواتین، نوجوان اوربوڑھوں کیساتھ ساتھ بچوں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں پچاس ملین سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس موجود ہیں جن کو لوگ استعمال کررہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستا ن میں فیس بک استعمال کرنیوالوں کی تعداد تیس ملین سے زائد ہے۔ سوشل میڈیا افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغامات کی ترسیل اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر بہت سی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئرکرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں اس میں انتہائی تیز رفتار ترقی ہوئی ہے اور اب سوشل میڈیا نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ آج ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ اور اس کے اثرات کا نتیجہ لمحہ فکریہ بنتا جا رہا ہے

یہ کہنا بے جا نہیں کہ آج کے وقت میں اگر دنیا سے انٹرنیٹ کی سہولت ختم کر دی جاۓ تو عالمِ اقوام مفلوج ہو کر رہ جاۓ گی کاروبارِ زندگی معطل ہو جاۓ گا مگر جہاں انٹرنیٹ اور موبائل فون پہ موجود سوشل ایپس انسان کی زندگی کو آسان اور پرلطف بنا رہی ہیں وہاں ان کا بےجا استعمال معاشرتی برائیوں کا بیش خیمہ بھی ثابت ہو رہا ہے نوجوان نسل بےراہروی کے راستوں پہ تیزی سے بھاگ رہی ہے اور بیچ میں کہیں ٹھہراؤ نہیں اس دور میں پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں کا موازنہ آج سے پندرہ سال پہلے کے بچوں سے کریں تو فرق واضح محسوس ہوتا ہے کہ آج کا بچہ تو پیدائش سے پہلے الیکڑانک اور جدید آلات کے استعمال کی تربیت ماں کے پیٹ سے لے کر آتا ہے یعنی وہ پیدائش سے پہلے سے جانتا ہے جب وہ نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں رہتے ہوۓ باہر کے ماحول کو محسوس کرتا ہے اپنے والدین اور اردگرد کے ماحول میں ان آلات کا استعمال دیکھتا ہے تو سوچیں وہ کیسی تیزی یا پھرتی لے کر اس دنیا میں وارد ہو گا اور بچوں کی بےراہروی میں تمام اُن کا بھی قصور نہیں بلکہ وہ جس جدت پسند دور میں آنکھ کھولتے ہیں اپنے اردگرد جو ہوتا دیکھتے ہیں اُسی طرز و طور کو زندگی کی شعار بنا لیتے ہیں ہمارے والدین آج سے بیس پچس سال پہلے ان آلات سے واقف نہ تھے

نوجوان نسل میں بڑھتی انتہا پسندی کی وجہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو کہیں۔ تو غلط نہیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ استعمال ہماری نسلوں کو تباہی کی جانب لے کر جا رہا ہے۔ نا پختہ ذہنوں کے بچے اور بچیاں جو دیکھتے ہیں اُسے ہی واجب اور جائز مان لیتے ہیں شعور اور تربیت کی کمی مزید سونے پہ سہاگا کا کام کر رہی ہے والدین کی حد درجہ مصروفیت اور بچوں کو بہلانے کے لیے موبائل فون تھما دینا نئی نسل کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔

جانے کون کہتا یے دنیا ایک میلہ ہے

یہاں تو جس کو دیکھو وہی اکیلا ہے

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq