Gustakh Meharban
گستاخ مہربان
ایک ریاست کا بادشاہ عوام پر بڑا ظلم کرتا تھا، ہر فرد پر اُس نے ہر طرح کا ٹیکس لگا دیا تھا، عوام خاموشی سے برداشت کر رہی تھی ایک دن بادشاہ نے وزیر خاص کو بلایا اور کہا مَیں نے عوام پر جتنا ظلم کِیا جا سکتا تھا، کِیا ہے، جتنا ٹیکس لگایا جا سکتا تھا لگایا ہے، عجیب ڈھیٹ قوم ہے۔ میرا ہر ظلم خاموشی سے برداشت کر رہی ہے میرے پاس کوئی شکایت کرنے یا ٹیکسز کی واپسی کا مطالبہ لے کر نہیں آیا۔ مجھے کوئی مشورہ دو کہ مَیں ایسا کیا کروں؟ جو میری رعایا مجھ سے انصاف اور رعایت مانگنے میرے دروازے پر آئے۔ تاکہ بادشاہت کے رباب کا لطف آئے۔ یہ کیا؟ میں ظلم کرتا جاتا ہوں یہ چپ چاپ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں یہ مجھ سے رحم کی عرضی کریں۔ میری منت سماجت کریں۔
وزیر موصوف نے اپنی عقل و دانش کے مطابق مشورہ دیا بادشاہ سلامت آپ حکم فرما دیں، آئندہ شہر سے باہر جو بھی مزدوری کرنے جائے گا وہ فلاں پُل پر سے گزر کر جائے گا، وہاں بیٹھے ہمارے سرکاری اہلکاروں سے دس دس جوتے کھائے گا تو بلبلا کر خود ہی آپ کے پاس رحم کی درخواست لے کر آئے گا۔ بادشاہ کو وزیر کا مشورہ بڑا مناسب لگا۔ دوسرے دن ہی بادشاہ کے حکم پر عمل شروع کر دیا گیا جو بھی شہر سے باہر جاتا پُل سے گزر کر جاتا، بادشاہ کے حکم کے مطابق دس دس جوتے کھا کر جاتا، کسی نے دس دس جوتوں کی وجہ نہیں پوچھی، کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد بادشاہ نے وزیر کو پھر بلایا کہ اب کیا کیا جائے یہ ڈھیٹ قوم تو دس جوتے کھا کے بھی نہیں آئے۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت دس کی بجائے بیس جوتے لگانے چاہیے تھے۔ بادشاہ بولا ایسا کر کے دیکھتے ہیں۔ مگر عوام بیس جوتے کھا کے بھی خاموش رہی۔ بادشاہ نے پھر وزیر کو طلب کیا۔ وزیر بولا اے بادشاہ بیس جوتوں کے ساتھ ایک سکہ لگان بھی لیا جائے۔ بادشاہ بولا ٹھیک ہے ایسا کیا جائے،کچھ دن گزرے ہوں گے بادشاہ کو اطلاع دی گئی محل کے باہر لوگوں کا ہجوم ہے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں، بادشاہ بڑا خوش ہوا۔ آج عوام مجھ سے انصاف مانگیں گے، مَیں انصاف فرماؤں گا۔۔۔
یہ کہانی آپ سب نے بہت جگہ پڑھی اور سنی ہو گی۔ بادشاہ نے رحم کرنے کی خواہش میں ظلم کی انتہا کر دی۔
مگر یہ فقط عہد رفتہ کی داستان نہیں۔ موجودہ دور میں بھی حالات اس سے مختلف نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصے میں بدبختی سے ہر بار ایسے حکمران آئے۔ جنھوں نے عوام کو سبز باغ دکھائے۔ ترقی و خوشحالی کے وعدے کیے۔ مگر اقتدار ملتے ہی سارے وعدے ہوا ہوئے۔ انتخابات سے پہلے کی مہربانیاں حکومت ملتے ہی ظالم کی گستاخیاں بن جاتی ہیں۔ اُس کے بعد عوام بےچاری کے حصے میں فقط آیتِ صبر رہ جاتی ہے۔
نہ کرو اب وفا کی باتیں !
تم کو اے مہربان دیکھ لیا
موجودہ پی ٹی آئی جماعت کی حکومت نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل بہت بلند وبالا دعوے کئے تھے کہ نہ صرف سابقہ چوروں، غداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ بلکہ لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی واپس لائی جائے گی۔ اور ایک پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں صرف 100 دن میں دی جائیں گی۔ عوام کو امید تھی کہ 100 نہیں تو 200 دنوں میں ملک کی تقدیر بدل جائے گی لیکن اب تو تین سال مکمل ہونے کو ہیں باوجود صرف سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں سنیں، حکومتی مہربانیوں کے باعث مہنگائی کا سونامی آ گیا، اس کے علاوہ کاروباری حلقے سے چھیڑچھاڑ بھی جاری ہے، تاجروں کو اعتماد اور عزت دینے کے بجائے ڈرایا، دھمکایا جا رہا ہے۔ اوپر سے نت نئے ٹیکس (بالخصوص ان ڈائریکٹ ٹیکس)نافذ کر کے، ڈالر، پیٹرول، بجلی، گیس مہنگی کی جا رہی ہے۔ جس سے رہی سہی عوام کی طاقت بھی دم توڑنے لگی ہے۔
اب موجودہ حکومت نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ پچھلے ماہ پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں حکومت کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اپوزیشن و حکومت کے درمیان ہونے والی مڈ بھیڑ نے اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر دیں۔ قصہ مختصر بد اخلاقی کے معاملے میں حکومت کا پلڑا بھاری رہا۔ ان حالات میں عوام کی خاموش نظریں فقط یہ ہی کہتی نظر آتی ہے
سب پہ تو مہربان ہے پیارے!
کچھ ہمارا بھی دھیان ہے پیارے