Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Ghar To Akhir Apna Hai

Ghar To Akhir Apna Hai

گھر تو آخر اپنا ہے

جشنِ آزادی کی آمد آمد ہے۔ ہماری پہچان اور شان ملکِ پاکستان اپنی عمر کے چوہتر سال مکمل کر چکا ہے۔ اس کا وقار ہماری عزت اور اس کی بدحالی ہماری تذلیل ہے۔ ہم دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں۔ وہاں پردیسی ہی کہلائے جائیں گے۔ ذات پات، فرقے، ذاتوں کی بجائے ہم بطور پاکستانی پہچانے جاتے ہیں۔

مری شناخت اگر ہو تو تیرے نام سے ہو

اے ارضِ شوق تری چشمِ معتبر میں رہوں

چودہ اگست انیس سو سنتالیس کو متحدہ ہندوستان میں دو ریاستوں کی سرحد بندی اور دنیا کے نقشے پہ ایک نوزائیدہ مملکت کے نام کا اضافہ جوئے شِیر لانے سے کم نہ تھا۔ پاکستان کا قیام کوئی آسان عمل نہ تھا۔ بلکہ یہ کئی سالوں کی ریاضیت اور رتجگوں کا نتیجہ ہے۔ تحریکِ آزادی کا آغاز سرسید نے 1857 کی جنگ کے دو سال بعد تعلیمی اداروں کے قیام سے ہی شروع کر دیا تھا۔ اور اس تحریک کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا قائد اعظم کے سر سجا۔ مگر 1857 سے 1947 تک کا سفر کانٹوں پہ چلنے کے مترادف تھا۔ کئی قیمتی جانیں وار دی گیئں۔ عزتیں ملیامیٹ ہو گیئں۔ رات دن کا سکون و آرام بالائے طاق رکھا گیا۔ تب اس پاک سرزمیں کا خواب زندہ تعبیر ہوا۔

اس مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

ملک تو بن گیا۔ کفر و تاریکی کے گہرے بادل چَھٹ گیا۔ معبودِ غیر کی غلامی کے بجائے آزاد فضائیں ہمارا مقدر بن گئیں۔ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دشمن اسے ملیامیٹ کرنے کے خواب سجائے بیٹھا تھا۔ کہ یہ ریاست جلد ختم ہو کر پھر سے ہندوستان میں ضم ہو جائے گی۔ لیکن دشمن کی اس پست سوچ کو ہمارے عظیم بزرگ راہنماؤں نے سچ نہ ہونے دیا۔

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا انحصار نوجوان نسل کے کندھوں پہ ہوتی ہے نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں تو سوچیے کیا میں اور آپ ملک کی طرف جو ہماری ذمے داریاں ہیں؟ انھیں نیک نیتی سے ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اپنا فرض ادا کرتے ہوتے یہ پاک سرزمین ہمیں وراثت کے طور پر سونپ دی تو کیا ہم سب نے اُن کے قربانیوں کا مان رکھا۔ نہیں! ہم تو نہ صرف اپنے فرائض سے بھی انجان ہے۔ بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنے آباؤ اجداد کی محنت و لگن بھی فراموش کرتے جا رہے ہیں۔

بحیثیت ایک عورت یا مرد میری ذمے داری کیا یے؟ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے۔ ایک طالب علم کو اپنے علم کے مقصد سے آگاہ ہونا ہے۔ علم کی طاقت سے نہ صرف خود کو بلکہ ملک کو بھی تقویت بخشنی ہے۔ ایک پیشہ ور شخص خواہ وہ کسی پیشے سے منسلک ہے۔ اُس کے لیے اپنے ہنر و قابلیت کو ملک کی ترقی کے لیے بروئے کار لانا لازم ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ذمے دار والدین کی حیثیت سے نسلوں کی آبیاری یوں کرنی ہے کہ وہ آنے والوں وقت میں گھنے پھلدار شجر کی مانند بن سکیں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ملک کا بچہ بچہ محب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو۔

جس طرح ہم اپنے گھر کے انتظامات خوش اسلوبی سے انجام دینے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ تو یہ بھی ذہن نشیں کریں کہ یہ ملک بھی ہمارے گھر کی مانند ہے اور اس کا نظام بھی تب ہی درست طریق پہ چلے گا۔ جب ہر فرد اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کرے گا۔ اگر گھر کی ذمے داری نوجوان نہ سنبھالیں۔ اور انتظام چلانے کا فریضہ بزرگوں یا بچوں کے ناتواں کندھوں پر ہو۔ تو ایسے گھر کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ اور وہ گر جاتا ہے۔ لیکن ہمیں محب الوطن شہری ہونے کا فرض ادا کرنا ہے۔ ہم نوجوانوں کو اپنے ملک کی باگ دوڑ کو سنبھالنا ہے۔ اور آئندہ وقت کے لیے اپنے بچوں کو بھی جانثار سپاہی کے طور پر تیار کرنا ہے۔

آج کے وقت میں بھی پاکستان بہت سے مسائل کی لپیٹ میں ہے۔ جس میں سرفہرست کرونا وبا اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی بےروزگاری اور معاشی بدحالی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستانی حکومت و عوام اور بھی بہت سی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ شہری آبادی پر دباؤ، فی کس آمدنی کا کم ہونا، بیرونی قرضہ جات، قدرتی آفات سمیت سیاسی راہنماوں اور بیوروکریٹس کی من مانیاں، دولت کی غیر مساوی تقسیم، روزگار کا نہ ملنا، دہشت گردی، لاقانونیت۔ یہ تمام عناصر پاکستانی عوام کا خون چوسنے اور دماغی لحاظ سے مفلوج کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر باوجود ان تمام مسائل کے، آفرین ہے پاکستانی قوم پر، یہاں کا بچہ بچہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ اور لاکھ مسائل کے بعد بھی ہر پاکستانی کے لب پہ یہی دعا رقصاں ہے۔

ہمارے ملک میں پھر سے کھلیں غنچے محبت کے

یہی میری دعا ہے اور یہی ارمان میرا ہے

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کا وجود روزِ اول سے ہی دشمنوں کی آنکھ کا شہتیر بنا رہا ہے۔ مگر ہمارے بزرگوں کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ بلکہ انھوں نے ہر مشکل کا تن کر مقابلہ کیا۔ اور طوفان کے سامنے پہاڑ بن کر ڈٹے رہے۔ اب یہ ہی ذمےداری ہم سب پر ہے۔ کہ ہم بھی بزرگوں کے طرزِ سوچ اور عمل کو اپنائیں۔ اور اس وطن کو وہی مان اور وقار بخشیں۔ جو ہمارے بزرگوں کا وطیرہ رہا ہے۔ ہم نے بھی یہ ثابت کرنا ہے کہ ہماری رگوں میں بھی محب الوطن بزرگانِ امت کا خون گردش کر رہا ہے۔

اس تیز رفتار اور لمحہ بہ لمحہ ترقی کی جانب بڑھتی دنیا میں پاکستان کا وقار بلند تر کرنے کے لیے فقط اتنا ضروری نہیں۔ کہ سبز و سفید علَم کو ہاتھوں میں اٹھائے رکھیں۔ بلکہ اپنی سانیس نثار کر کے اسے وہ پرجوش ہوایئں بخشنی ہیں کہ اس پرچم کی لہراہٹ کبھی جھکاؤ کی طرف نہ جائے۔

(14 اگست 1948) آزادی پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پہ بابائے قوم قائد اعظم نے فرمایا: "قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے۔"

آج ہم بہت سے مسائل کا شکار ہیں تو کیا؟ ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہیں تو کیا؟ مشکلات کی یہ تاریک رات ڈھلے گی ضرور۔ اور پھر خوشحالی کا ایسا سورج بلند ہوگا۔ جسے سارا جہاں دیکھے گا۔ اور ہمارے گھر کی خوبصورتی کی چمک تمام دنیا کو خیرہ کر دے گی۔ انشاءاللہ!

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry