Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Farq

Farq

فرق

دو اکتوبر بروز اتوار، صبح کے وقت ایک خبر بار بار سننے اور پڑھنے کو ملی کہ "اسلام آباد عدالت اتوار کے روز بھی کھل گئی۔ "اتوار چھٹی کا دن ہے لیکن عمران خان کی قبل از گرفتاری ضمانت درخواست کی وجہ سے عدالت کھلی رہی۔ جج دھمکی کیس میں بروز ہفتہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے گئے۔ مگر عمران خان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست برائے عبوری ضمانت 10 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی گئی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے عمران خان کی درخواست کی سماعت اپنے چیمبر میں کی، اور انہیں 7 اکتوبر سے پہلے متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

اب عدالتوں کو ایک نیا شیڈول بھی بنانا چاہیے کہ عدالتیں سات دن اور چوبیس گھنٹے سیاسی لیڈروں کے لیے دستیاب ہیں رات کا وقت ہو یا سرکاری تعطیل۔ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سیاسی لیڈر اور خاص طور پہ ملک کے مقبول ترین لیڈر کے لیے وقت اور دن کی کوئی قید نہیں۔ اور جب فیصلہ پسند نہ آئے۔ تو یہ ہی سیاسی لیڈر بلا خوف و خطر کہیں بھی، کبھی بھی عدالتوں پہ تنقید کرنے کے مجاز ہیں اور چونکہ ملک کے مقبول لیڈر کے لیے اصول بھی اس کی مرضی کے ہونے چاہیے تو جب تک وہ معافی مانگنے پہ نرمی نہ دکھائے تب تک تاریخ پہ تاریخ دیتے جاؤ۔ وارنٹ گرفتاری سزا کے طور پہ جاری ہو تو بارہ گھنٹوں تک پولیس انتظار کرے جب تک عدالت کی طرف سے عبوری ضمانت نہ مل جائے۔

میرا سوال یہ ہے کہ یہ تمام سہولیات ہم عام لوگوں کو کیوں میسر نہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو ہر شے پہ عائد ٹیکس بھرتے ہیں حالانکہ سرکاری صاف پانی ہمیں دستیاب نہیں، اور پینے کا پانی ہم فلٹر سے بھرتے ہیں یا پھر خرید کے پیتے ہیں۔ بجلی کے بلوں پہ بھی دس سے بارہ ہزار بلکہ اس سے بھی کئی زیادہ فیول ٹیکس دیتے ہیں۔ اپنی محنت کا رزق کھاتے ہیں کبھی حکومت کی عنایات وہ چاہے بینظیر انکم سپورٹ ہو یا احساس پروگرام یا پھر شہباز شریف کے 2000 روپوں کی امداد، سفید پوشی نے کبھی ان عنایات پہ ہاتھ صاف کرنے نہیں دیا۔

نہ کبھی ہم عام شہریوں نے ریاستی اداروں کی برملا تذلیل کی اور نہ کبھی کسی عدالت کے فیصلے کے خلاف واویلا کیا۔ اس کے باوجود جب کبھی ہم عام شہریوں کے وارنٹ جاری ہوئے۔ پولیس نے بروقت پکڑا اور گرفتاری کے بعد بھی ناک رگڑنے پہ ضمانت ملی۔ کبھی عدالت ہمارے انتظار میں پانچ منٹ بھی اپنے وقتِ مقرر سے زیادہ دیر کھلی نہیں رہی۔ ہمیں صاف بتا دیا جاتا ہے کہ عدالت کا مقررہ وقت یہ ہے عدالتی اہکار کسی ایرے غیرے کے ملازم نہیں جو انتظار میں بیٹھے رہیں۔ ہم عام شہریوں کو کیوں عدالتوں کی طرف سے یہ سہولیت دستیاب نہیں۔

اور قانون پہ مضحکہ خیز نکتہ یہ بھی ہے کہ ضمانت کے حصول کے لیے درخواست گزار کو عدالت خود حاضری دینی پڑتی ہے درخواست گزار کا بائیو میٹرک کیا جاتا ہے۔ مگر اتوار کی صبح عمران خان صاحب خود پیش نہیں ہوئے بلکہ اپنے وکیل کو عدالت بجھوا دیا۔ اور یہ تمام مہربانیاں اس لیڈر پہ ہو رہی ہیں جو 25 سال سے جہاد کر رہا ہے کہ قانون عام و خاص سب کے لیے برابر ہو۔ ریاست مدینہ کے داعی کا مطالبہ ہے کہ اس ملک میں امیروں کے لیے الگ اور غریبوں کے لیے الگ قانون منظور نہیں۔ شائد اس لیے اسے قانون میں خاص رعایت دی جارہی ہے کہ وہ اپنے مطالبات کی بنا پہ عوام میں مقبول ہو چکا ہے۔

کاش قانون ہم عام شہریوں پہ بھی ایسا مہربان ہو۔ تو ہمارے بھی کئی مسائل حل ہو جائیں ہمارے جیسے لوگ تو پولیس و عدالت کے نام سے ہی خوف کھا جاتے ہیں کہ ہم کمزور لوگ اگر اس جھنجھٹ میں پھنس گئے تو شائد پھر اس عذاب سے نکل ہی نہ سکیں۔ عدالتوں اور پولیس تھانوں کے سامنے سے گزرنے کی بجائے ہم راستہ بدل لیتے ہیں کیونکہ ہم عام شہری ہیں ہمیں نہ تو قانون کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ہمارے اردگرد سیکیورٹی گارڈز کی بھرمار ہے نہ تو ہم عام لوگوں کو سرکاری طور پہ تحفظ ملتا ہے نہ ہی سرکاری گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر۔ اس ملک پاکستان میں قانون امرا اور سیاست والوں کی رکھیل ہے اور عدالتیں ان کی محافظ۔

ہم ترسی آنکھوں سے مجبور اگر بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے ایک روٹی بھی چراتے ہیں تو دس جوتیاں پڑتی ہیں اور پانچ سو روپے جرمانہ۔ اور اگر ہمارے گناہ بڑے ہوں تو پھر سزا بھی بڑی ملتی ہے مگر مجال ہے کبھی ہم عدالت اور قانون کے خلاف ایک لفظ بولیں۔ کیونکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عام شہری ہیں۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal