Falsafa Ya Fasana
فلسفہ یا فسانہ
مجھے کبھی کبھی لگتا ہے میری فلاسفی دنیا سے بہت الگ ہے جسے یہ دنیا دار لوگ تسلیم نہیں کرتے یا شائد میرے اندر دنیا داری نہیں ہے۔ دنیا دار فطرت وہ ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ اپنے فائدے کے لیے تبدیل ہو جائے مگر مجھے نہ تو خوشامد پسند ہے نہ زبردستی کے احکام۔
مگر یہ دنیا وقت کے ساتھ بدلنے والے لوگوں کی ہے تب ہی تو کہتے ہیں کہ اگر لوگوں کی اصلیت دیکھنی ہے تو خود پہ گزرنے والے برے وقت میں دیکھو، سب پتہ چل جائے کون اپنا ہے کون پرایا؟ لوگ طاقت ور کے سامنے جھکتے ہیں۔ کبھی افسر کو چپڑاسی کی جی حضوری کرتے دیکھا ہے، کبھی فیکٹری مالک کو مزدور کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا ہے، لوگ تو اپنا فرسٹریشن اور بلڈ پریشر کا غبار بھی اپنے سے کمزور پہ نکال دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ مجھے جواب دینے کی جرات نہیں کرے گا۔
یہ نظام ایسے ہی چلنا ہے کیونکہ یہ دنیا ہے اگر دنیا میں جنت کے قانون رائج ہو جائیں تو یہاں سے جانے پہ کوئی راضی نہ ہو بلکہ قبر سے بھی واپس لوٹ آئیں۔ اسی لیے دنیا کو خود غرض اور لالچ کی جگہ کہا گیا ہے۔ لیکن یہ خود غرضی ان لوگوں کو سمجھ آتی ہے جو دنیا میں رہ کر بھی دنیا سے جڑ نہیں پاتے۔ ورنہ میں نے لوگوں کو یہ ہی کہتے سنا ہے کہ "ایسے ہی ہوتا ہے، طاقتور کمزور کے سامنے اگر نرم پڑ جائے تو اسے طاقتور کون سمجھے گا، اس سے ڈر کے کون رہے گا اس دنیا میں تو پھر سب ادنیٰ و اعلیٰ برابر ہو جائیں گے۔
"اگر یتیم بچے کو دھتکارا نہ جائے تو باپ کی وقعت کہاں رہی، اگر بیوہ کو مان سمان مل گیا تو سہاگن کا غرور خاک ہو جائے گا، اگر کنگال کو افسر شاہی بخش دی تو روپے والے کو عزت کون دے گا، اگر سڑک پہ بیٹھے بھکاری پہ آسمان سے نوٹ برسنے لگے تو محنت کی روٹی کون کمائے گا، اگر باپ کے گھر بیٹی راج کرتی رہی تو سسرال کا آنگن کون بسائے گا۔ یہ دنیا یونہی چلنی ہے ہانیہ ارمیا۔ تم اس دنیا کو بدل نہیں سکتی۔
میں خود پہ ہنسی اور سوچا کیا میں اس دنیا کو بدلنا چاہتی ہوں، اگر ہاں تو کیوں؟ اندر سے جواب آیا ہاں میں اس دنیا کو واقعی ہی بدلنا چاہتی ہوں میں اس دنیا سے سارے بھدے اور بھیانک رنگ نچوڑ کے اسے شوخ رنگوں سے بھرنا چاہتی ہوں، اس دنیا کو محبت، خلوص، نیکی، سچ سے خوبصورت بنانا چاہتی ہوں اس دنیا میں جو نفرتیں ہیں، تفرقہ ہے، اونچ نیچ کی دیواریں ہیں، آنسو ہیں، ماتم کی چینخیں ہیں۔ میری خواہش ہے کہ یہاں فقط خوشی اور ہنسی ہو۔
لوگ کمزور کو دھکا دے کر گرا نہ دیں، بلکہ مضبوط ہاتھ انہیں تھام لیں، کوئی کسی کو تنہا جان کر اس کا استحصال نہ کرے بلکہ آس پاس والے اس کی طاقت بن جائیں۔ یہ زندگی ایک بار ملی ہے ہم نہیں جانتے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہم کہاں تھے اور مرنے کے بعد کہاں جائیں گے؟ تو جب تک زندہ ہے زندگی جی لیں۔ مگر، اس دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ مجھے خود اپنی ہی سوچوں پہ بےحد ہنسی آئی کیونکہ مجھے اپنے بارے میں جو سننے کو ملتا ہے وہ بالکل درست ہے کہ "ایسا نہیں ہوتا ہانیہ ارمیا، تمہارا فلسفہ تو دنیا سے ہی نرالہ ہے۔ "