Dukh
دکھ
اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ میں صرف بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں کی ہمدردی میں ہی کیوں لکھتی ہوں؟ حالانکہ اس کے علاؤہ بھی عورت بہت سارے معاملات میں بےبس اور مجبور ہے مگر یہ اعتراض میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میں جب اپنے اردگرد دیکھتی ہوں تو عجیب کھچڑی پکی نظر آتی ہے۔ ایک عورت جب بہو ہے تو وہ بہت مظلوم ہے ساس، سسر، نند، جیٹھانی، دیورانی، حتیٰ کہ شوہر کے ظلم بھی وہ سہہ رہی ہے اور ان مظالم کا خاتمہ صرف سسرال سے علیحدگی کی صورت میں ممکن ہے۔
مگر جب یہ بہو، ساس بنتی ہے تو اپنے بیٹے اور بہوؤں کو اتحاد اور یکجہتی کے درس پڑھاتی رہتی ہے انھیں"اتفاق میں برکت" کی دہائیاں دیتی ہے۔ بہو کو اپنی ماضی کے قصے سنا کر یہ جتاتی ہے کہ جو ظلم میں نے سہہ لیے، تم تو ان کو سوچ ہی لو، تو دم نکل جائے گا۔ پھر یہ ہی عورت نند، بھاوج، دیورانی، جیٹھانی کے روپ میں ایک دوسرے کی دشمن ہے۔ مجال ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیں۔
یہاں تک کہ اکثر گھرانوں میں تو بہنیں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں ہوتیں۔ میں تو حیران ہوتی ہوں جب "بین الاقوامی عورت دن" پہ عورتیں پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پہ ڈیرا جمائے ہوتی ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کس کے لیے انصاف مانگ رہی ہیں، اپنے لیے؟ یا اپنی ہم جنس تمام عورتوں کے لیے؟ ان کے مطالبے بھی عجیب ہوتے ہیں میں جو مرضی لباس پہنوں مجھے دیکھا نہ جائے، میں گھر کا کام نہ کروں مجھے پوچھا نہ جائے، میں رات گئے سڑکوں پہ گھوموں مجھے چھیڑا نہ جائے۔
آدھی رات کو گھر سے نکلنے والی عورت عبایا، حجاب میں بھی ہو تب بھی گلی کا کتا اس پہ بھونکتا ہے یہاں تک کہ مردوں پہ بھی بھونکتا ہے اب گلی کے کتوں کے خلاف بھی عورتوں کو احتجاج کرنا چاہیے کہ انھیں تمیز سکھائی جائے۔ ان کے مطالبات میں عورت کا تحفظ کہاں ہے؟ عورت تو گھر کہ چار دیواری میں بھی بسا اوقات محفوظ نہیں ہوتی۔
عورت کے بہت سارے روپ ہیں اور ہر روپ میں وہ بہت خوبصورت ہے کیونکہ خدا نے اسے نزاکت اور حسن ودیعت کیا ہے۔ لیکن کیا وہ اپنے نسوانی حسن کو سنبھال کر رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے؟ ماں کا درجہ بلاشبہ افضل اور اعلیٰ ہے مگر ہم اپنے ہی اردگرد وہ مائیں بھی دیکھتے ہیں جو اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں بچوں کے مستقبل کی پروا کیے بنا۔ ان ماؤں کے قصے بھی سنے ہیں جنھوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو مار دیا اور ان کے جرائم سے قانون کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔
ہم اپنے اردگرد وہ مائیں بھی دیکھتے ہیں جو شادی کے پہلے دس سال اپنے شوہر سے جوتیاں کھاتی ہیں انھیں ہر روز اپنی وفا داری کا ثبوت دیتی ہیں اور اس کے بعد اپنی بیٹیوں کو باپ اور بیٹوں کی عزت کا مان رکھنے کے سبق پڑھاتی ہیں اور اگر بیٹی اس سبق کو بھلا کر کسی اور ڈگر نکل پڑے تو شوہر پہ اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے اپنی پیدا کی بیٹیوں کو ایسی بددعائیں دیتی ہیں کہ الامان۔
یہ سب وہ عورتیں ہیں جو اپنے ہی خود ساختہ دکھوں کا شکار ہیں۔ ان پہ سارے ظلم ان کے اپنے ہی کرتے ہیں۔ عورت کے اس دوغلے پن پہ مجھے بہت ہنسی آتی ہے کہ ایک طرف تو وہ خود کو مظلوم جتاتی ہے اور دوسری طرف اپنی ہم جنس کی حالتِ زار کا تماشا بناتی ہے۔ عورت چاہتی ہے فقط اس کی ذات پہ رحم کیا جائے اور اس کی ہم جنس پہ ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں اس تماشے سے اسے راحت ملتی ہے۔ لیکن مقدر کے ظلم کی تکلیف جاننی ہو تو کسی جوان بیوہ سے اسکے دل کا حال پوچھو اگر وہ بتا دے تو، کہ کس طرح اس کے ارمان بدبختی کی نظر ہو گئے کیسے اس کے خواب مٹی کے نیچے دفن ہو گئے۔
موت برحق ہے اپنے وقت پہ آنی ہے اور موت اور زندگی میں انسان کی دخل اندازی قدرت کو گوارا نہیں۔ پچیس سے پنتالیس سال کی وہ بیوہ جو اولاد والی ہو اور جانتی ہو اب ان بچوں کے آسرے ہی مجھے جینا ہے اپنے جسم اور دل کی خواہشوں کو شوہر کے مردہ وجود کے ساتھ قبر میں دفن کر کے۔ بے شک یہ اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے مگر کیا کوئی اس کے دکھ کی انتہا سمجھ سکتا ہے؟ جب وہ اپنی ہم عمر عورت کو شوہر کے ساتھ ایک پرسکون اور محبت بھری زندگی گزارتے دیکھتی ہے تو کیسا محسوس کرتی ہے؟