Dua Zahra, Qaumi Masla
دعا زہرہ، قومی مسئلہ
بہت سارے میڈیا اینکرز اور یو ٹیوبرز کا کہنا ہے کہ دعا زہرا کیس قومی مسئلہ ہے مگر دعا زہرا نہ تو ہمارا قومی مسئلہ ہے نہ ہی عوامی۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک عام سی کہانی تھی جسے بڑھا چڑھا کر نجانے کونسا رنگ دیا گیا اور ابھی بھی اس رنگ پہ مزید پرتیں چڑھائی جا رہی ہیں۔
کیا اس سے پہلے فرقوں کا فرق بالائے طاق رکھ کر پسند کی شادیاں نہیں ہوئیں؟ کیا اک سے پہلے کبھی لڑکیاں گھر سے نہیں بھاگیں؟ کیا آج سے پہلے کسی کم عمر لڑکی نے نام نہاد محبت کے نام پہ بغاوت نہیں کی؟ اللہ جانے قوم کو کم عقلی کا کونسا مشروب پلا رکھا ہے کہ انھیں ملک وقوم کے بڑے بڑے مسائل کبھی نظر ہی نہیں آئے۔
دعا زہرا ہمارے اخلاقیات سے عاری اسی معاشرے میں پنپنے والا ایک گلا سڑا پودا ہے جو کچھ تو پیدائشی ایسی ساخت لے کر اگا، کہ اس پہ نہ مٹی کی محبت نے اثر کیا، اور ہی گرم سرد موسموں سے بچانے والے سایہ دار درخت نے۔
والدین وہ ہستی ہوتے ہیں جو نہ صرف بچے کو پیدا کرتے ہیں بلکہ ننھی انسانی جان کو اصل معنی میں زندگی دیتے ہیں تمام مخلوقات میں سے انسان کے بچے کی پرورش ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ ماں رات بھر جاگتی ہے تب بچہ سکون کی نیند سوتا ہے باپ اپنے دن کا آرام قربان کرتا ہے تاکہ بچے کو اپنی کسی خواہش کی قربانی نہ دینی پڑے۔ لیکن جب ایسی تگ ودو کے بعد اولاد نافرمان ہو جائے تو گلہ کس سے کریں۔
دعا زہرا بھی ایسے ہی بچوں میں سے ایک ہے جسے ماں باپ کا غصہ اور چینخنا ہی سمجھ آیا ان کی محبت وہ کبھی سمجھ ہی نہ پائی۔ لیکن اس تمام معاملے میں، میں مانتی ہوں کہیں نہ کہیں غلط تو ماں باپ بھی ہیں 2020 میں کرونا کی آمد کے بعد جیسے ہی لاک ڈاؤن لگا، انھوں نے اپنی بچیوں کو سکول سے مکمل الگ کر دیا۔ چلیں مان لیا سندھ میں لاک ڈاؤن کو غیر معینہ مدت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ مگر نوعمر بچوں کو تعلیم چھڑوا کر ٹیبلٹ کے حوالے کر دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ کیا یہ بچوں کی جائز تربیت اور پرورش ہے کہ بچوں کو کھانے کے پیزا اور برگر تھما دینا اور فارغ لمحات میں جی بہلانے کے لیے ٹیبلٹ۔
کیا اس تربیت کے زیر سایہ پلنے والے بچے معاشرے کے صحت مند رکن بن سکتے ہیں؟ اگر بن سکتے ہیں تو تعلیمی اداروں کو تالا لگا کے جا بجا موبائل شاپس کھول لینی چاہیے۔ والدین کے لیے لازم تھا کہ سکولوں کی بندش کے متبادل ان کے لیے کسی صحت مند سرگرمی کا بندوبست کرتے، اگر کچھ نہیں بھی تھا تو کم از کم کسی قاریہ کا انتظام کرتے جو دو بڑی بچیوں کو دین کی تعلیم دیتی۔ انھیں خیر اور شر کا فرق سمجھاتی۔ انھیں دنیا اور آخرت میں سرخرو ہونے کے طریقے بتاتی۔ خود اپنے ہی بچوں کو بم کے گولے پہ بٹھا کے کہنا ریموٹ کنٹرول کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے بچوں کو مارنے والا تو کوئی اور ہے ہم تو ان کے محافظ ہیں۔
محافظ جب رات کے وقت اونگھنے لگتا ہے تب ہی چور آ کر نقب لگاتا ہے۔ بچوں کے حوالے سے والدین کا کردار بھی بالکل ایسے ہی محافظ کا ہوتا ہے جہاں والدین نے نظر انداز کیا، وہیں اولاد کے قدم بہکنے لگتے ہیں۔ دعا زہرا کیس بھی اس نکتے کی عکاسی کرتا ہے والدین کا نوعمر لڑکی کو ٹیبلٹ تھما کر لاپرواہ ہونا ان کی رسوائی کا سبب بنا۔ ہم اس پورے معاملے میں والدین کی لاپرواہی کو قطعی نظر انداز نہیں کر سکتے۔
دوسری بڑی غلطی والدین نے اس کیس کو اس قدر اچھالا، کہ گردو پیش میں والدین اب خوف کھانے لگے ہیں کہ کہیں آئندہ وقت میں ہم ایسے معاملے کے متاثرین نہ بن جائیں۔ بہت ساری بچیاں جو اس گناہ سے ابھی بہت پرے ہیں وہ والدین کے لیے مشکوک ہو چکی ہیں کیونکہ اس کیس کو ہوا کی طرح پورے معاشرے میں بکھیر دیا گیا ہے گو کہ اب یہ کیس آزاد خیال لڑکیوں کے لیے مقام عبرت بن چکا ہے مگر بہت سارے قدم ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھلنے کے عادی ہوتے ہیں۔
میں نے دعا زہرا کے بہت سارے انٹرویوز دیکھے، اسکے والدین اور والدین کے حمایتوں کے بقول لڑکی کو نشہ آور ادویات دی گئیں۔ جس سے اسکے دماغ کو ماؤف کر کے سوشل میڈیا پہ بیان دلوائے جاتے ہیں لیکن وہ لڑکی جب پولیس، وکیل یا عدالت کو بیان دیتی ہے تو کیا کوئی بھی یہ بات سمجھ نہیں پایا کہ یہ نشے کی حالت میں ہے چلیں مان لیا زنیرا ماہم نے اپنی شہرت کے لیے انٹرویو میں بہت ساری باتیں خود سے شامل کیں، مگر اس کے علاوہ اور بہت سارے لوگ بھی اس کا انٹرویو لے چکے ہیں کیا وہ سبھی اسکی دماغی حالت کو سمجھنے سے عاری رہے ہیں۔
دوسری بار میڈیکل کروانے کے لیے سندھ پولیس نے صرف دعا زہرا کو گھر سے اٹھایا اور کراچی لے آئے۔ ڈاکٹرز کیا بالکل پتہ نہ کر سکے کہ اسے نشہ دیا جاتا ہے؟ یا پھر کسی طرح والدین سے ملاقات کرنا یا ان تک کوئی پیغام پہنچانا میڈیکل کرواتے وقت کیا ممکن نہ تھا؟
بہت سارے دعا کے حمایتی اس بات سے آج بھی انکاری ہیں کہ لڑکی والدین کے گھر سے اپنی مرضی سے نکلی ہے جبکہ اصل سچ یہ ہی ہے کہ اس کا گھر سے نکلنا اس کی اپنی مرضی پہ منحصر تھا ہاں کراچی سے لاہور بلاشبہ اس کا اکیلے جانا ممکن نہیں۔ مگر بہت سارے حقائق پہ پردہ ڈال کر صرف ظہیر کو غلط کہہ دینا کیا درست ہے؟
اس شادی کے پیچھے پس پردہ ظہیر اور اس کے بھائی کے عزائم ابھی کہی سنی باتیں ہیں عدالتی بنیاد پہ ثابت کچھ نہیں ہوا اور دعا زہرا کو مظلوم اور معصوم کہنے والے ایک وقت میں عائشہ گریٹر اقبال والی باجی کو بھی قوم کی بیٹی کہہ رہے تھے اور اس کے دکھوں پہ بھی ان کا دل ویسے ہی رنجیدہ تھا جیسے آج معصوم دعا زہرا کے لیے ہے۔ وہ دعا زہرا جو ابھی تک اپنے والدین کے پاس جانے کے لیے راضی نہیں ہے۔