Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Corona Aur Taleemi Policiyan

Corona Aur Taleemi Policiyan

کرونا اور تعلیمی پالیسیاں

۲۰۲۰ میں وارد ہونے والی کرونا وبا نے نہ صرف ملکِ پاکستان بلکہ تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس بیماری نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ شعبہ طب میں نمبر ون مانے جانے والے ممالک نے بھی ہتھیار ڈال دئیے۔ کیونکہ وہ بھی اس بیماری کا فوری توڑ نہ کر سکے اور حل یہ نکالا گیا کہ تمام معاملاتِ جہاں ترک کر کے انسانوں کو گھر میں محفوظ رہنے کی ہدایت دی گئی۔ بہت مشکل حل تھا۔

طب اور سائنس کے شعبے سے منسلک اور تعلیم یافتہ کمیونٹی کا ایک گروہ اس وائرس سے ہونے والی تباہی کو مانتے تھے مگر عام سمجھ بوجھ والے لوگوں کے لیے یہ وائرس ایک سازش تھی کاروبارِ زندگی کو برباد کرنے کا۔ وہ مانتے ہی نہیں تھے کہ ایسا کوئی وائرس الہٰی آفتوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ انھیں یہ حکومتوں کا خودساختہ منصوبہ لگتا تھا۔ ترقی یافتہ ممالک تو گھر بٹھا کر عوام کی ضروریات پوری کر رہے تھے۔ مگر پاکستان جیسا ملک جہاں وسائل اور سرمائے کی قلت ہے۔ جہاں لوگ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو شام کے کھانے کا بندوبست ہو پاتا ہے۔ جہاں شعبہ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری لے کر برسرِ روزگار ہونا ہے وہاں تعلیم بند ہو جائے تو کیا ہو؟ رنگینوں اور سیرسپاٹوں میں مصروف دنیا کو یکدم گھر میں نظر بند کرنے کا فیصلہ۔ اگر یہ فیصلہ چند دنوں کے لیے ہوتا تو شائد قابلِ قبول بھی تھا۔ مگر یہ تو ایسی وبا ثابت ہوئی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھنے لگی۔ کاروبار بند ہونے لگے۔ لوگوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جانے لگا۔ بےروزگاری اور افلاس بڑھنے لگی غرضیکہ اس وبا نے ایک طرح سے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

کرونا نے جہاں معاشیاتِ جہاں کو متاثر کیا۔ وہیں تعلیمی شعبہ بھی اس کے شکنجے سے بچ نہ سکا۔ بلکہ بباعث کرونا بچاؤ سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا۔ کیونکہ دانشوروں اور مفکرین کے مطابق، کسی بھی مشکل، وبا یا مصیبت کے دور میں نوعمروں کو اس سے محفوظ رکھو۔ کیونکہ یہ آنے والے وقت کے معمار ہیں۔ لہذا ہر زندہ قوم اپنے حال کی بجائے مستقبل کی منصوبہ بندی پہلے کرتی ہے۔

تعلیمی ادارے ملکِ پاکستان میں بھی ۱۵ مارچ ۲۰۲۰ سے غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دئیے گئے۔ اب ضرورت اس امر کی تھی کہ بچوں کو تعلیم سے کیسے وابستہ رکھا جائے۔ اس کے علاوہ مارچ سے اکتوبر تک کے مہینے سالانہ امتحانات کے ہوتے ہیں۔ لہذا کافی سوچ بچار کے بعد آن لائن تعلیم کی تجویز منظور کی گئی۔ کیونکہ شعبہ تعلیم صرف درس و تدریس تک بس نہیں۔ بلکہ یہ کاروباری دنیا سے بھی جڑا ہوا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے۔ اور نجی تعلیمی ادارے طلبہ کی موجودگی سے ہی رواں رہتے ہیں۔ ورنہ بند ہو جاتے ہیں۔ اور اس وبائی بدحالی کے نتیجے میں بہت سے نجی تعلیمی اداروں کا وجود ختم بھی ہو گیا۔ سالانہ امتحانات کو بھی فی الوقت ملتوی کیا گیا۔ یہ کہہ کر کہ اس کے متعلق جلد کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

پاکستان وزارتِ تعلیم ان مسائل سے نمپٹنے کی تگ ودو میں لگی رہی۔ کیونکہ یہ دوہری پریشانی تھی۔ ایک تو اداروں کی بندش کی فکر اور دوسرا مسئلہ آن لائن تعلیم۔ جس ملک کے ہم باسی ہیں وہاں تو اکثر بچے کلاس میں استاد کی موجودگی میں توجہ نہیں دیتے۔ تو موبائل یا لیپ ٹاپ پہ جب کلاس لی جائے تو کیا صورتحال ہو گی۔ آن لائن کلاس کے دوران کیمرہ میوٹ، وائس میوٹ، کیا پتہ چلے گا کہ استاد کا دیا لیکچر وہ سن بھی رہا ہے یا نہیں۔ توجہ دے رہا ہے، کتاب موجود ہے اْس کے پاس، یا نہیں۔ اکثر طالبعلم تو صرف حاضری کے لیے موجودگی ظاہر کرواتے ہیں۔ اُس کے بعد غائب، پھر انٹرنیٹ کے سو مسائل۔ اکثر جگہوں پہ اساتذہ بھی اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے بےخبر ہیں۔ ایلمنٹیری جماعت تک کے کچھ تعلیمی اداروں نے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے رجسڑ ورک دے دئیے۔ تمام غیر نصابی سرگرمیاں تاحال ملتوی کر دی گئی۔ ۲۰۲۰ میں کرونا کی بڑھتی شرح کے پیشِ نظر ثانوی اور اعلٰی ثانوی جماعتوں کے سالانہ امتحان کینسل کر دئیے گئے۔ جو کہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ بنا پیپرز کے نتائج تیار کر کے بچوں کو پرومٹ کرنا آسان عمل نہیں۔ مگر شعبہ تعلیم جہاں ایک طرف کرونا کی سنگینی سے پریشان تھا تو دوسری جانب اس شعبے کے مسائل بھی حل کرنے میں نبرد آزما نظر آئے۔ ڈگری اور اعلٰی درجے کی جماعتوں کے امتحان کہیں آن لائن تو کہیں امتحانی مراکز میں ایس او پیز کی شرائط کی پابندی سے انجام پائے۔ سال ۲۰۲۰ میں کچھ وقت کے لیے تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت بھی دی گئی۔ مگر دو ماہ سے زیادہ ادارے کھولے نہ جا سکے کیونکہ ادارے کھلتے ہی محکمہ صحت کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کر دئیے جاتے کہ ادارے کھولنا بچوں کی زندگیوں کو داؤ پہ لگانے کے مترادف ہے۔ اور یہ اداروں کی بندش کا سلسلہ ۲۰۲۱ تک بھی جاری رہا۔

موجودہ وقت کی اگر بات کریں تو کرونا کی تلوار ابھی بھی سر پہ منڈلا رہی ہے۔ مگر ساتھ ساتھ کرونا بچاؤ کی ویکسینیشن بھی دریافت ہو چکی ہے اور حکومتِ وقت بڑی تیزی سے اس پہ کام کر رہی ہے۔ تعلیمی ادارے ماہ جون سے کھول دئیے گئے تھے مگر ماہ جولائی میں سرکاری اداروں میں تعطیلات دی گئیں۔ مگر نجی اداروں کو اختیار دیا گیا کہ ادارہ کھولنا یا بند رکھنا اُن کا فیصلہ ہو گا۔ کچھ ترامیم کے ساتھ ثانوی تا اعلٰی جماعتوں کے امتحانات لینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس پہ اعتراض بھی کیا گیا کہ تقریباً دو سال سے تعلیمی ادارے بند ہیں تو امتحان لینا غلط فیصلہ ہے۔ لیکن اعتراض کرنے والے اگر دانش سے کام لیں۔ تو بنا امتحان کے اس بار بھی نتائج تیار کرنا اور پروموشنز کرنا کیا آسان ہے۔ اور امتحان کو جتنا بھی تاخیر میں ڈالا جائے۔ یہ بات طے ہے کہ بچے نے پڑھنا پیپر سے ایک دن پہلے ہی ہوتا ہے۔ اور تعلیمی اداروں کی بندش جہاں وقت کی مجبوری تھی وہاں یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ہمارے بچے کتاب سے دور ہو گئے ہیں اور کتاب سے دوری کا مطلب، سلسلہِ تعلیم و تربیت سے دور ہو جانا۔ جو کہ ایک ترقی یافتہ ملک کو دوبارہ پستی کی جانب لے جانے کے مترادف ہے۔

نوٹ: (سندھ کے تعلمیی ادارے مارچ ۲۰۲۱ سے تاحال بند ہیں)

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq