Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hania Irmiya/
  4. Barabri

Barabri

برابری

میری والدہ اکثر و بیشتر مجھے صرف ایک سبق یاد کروانے میں مصروف رہتی ہیں کہ "مرد افضل ہے" وہ اس سبق کو پڑھاتے وقت پنجابی کی ایک کہاوت "بندہ تے مٹی دا مان نہیں" بھی سناتی ہے جس کا مطلب مجھے آج کی تاریخ تک سمجھ نہیں آیا اور آفرین، میری بہن بھی والدہ کے نقش قدم پہ چل نکلی ہے حالانکہ وہ بیٹیوں کی پیدائش کو کسی طور حقیر نہیں جانتی، مگر مرد کی فضیلت کے قصیدے وہ بھی اسی جوش و جذبے سے سناتی ہے۔ بھابھی میری ان سے بھی دو ہاتھ آگے، انھیں صرف بیٹے پسند ہیں اس پورے گھرانے میں صرف ایک میں ہی باغی اور سرکش ہوں جسے برابری چاہیے۔

میں نے برابری کی خواہش کبھی مقابلہ کرنے کی غرض سے نہیں کی، لیکن اسے سوچ کی وسعت کہیے یا نہ جھکنے کی عادت، میں یہ بات سمجھنے سے قاصر رہی کہ کیوں مجھے کھل کر جینے کی آزادی نہیں؟ کیوں بچپن میں، میں اپنے بھائیوں کی طرح سائیکل نہیں چلا سکتی؟ کیوں اٹھارہ سے بیس کے ہوتے ہی میرے والد نے بھائیوں کو موٹر سائیکل لے کر دی اور مجھے جب کہیں جانا ہو تو گھر والے کی منتیں کرنی پڑتی ہیں کہ مجھے گھر سے باہر لے جائیں۔ مجھے محافظ کی ضرورت کیوں ہے؟

جبکہ لڑکوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں۔ کیوں میں کرکٹ نہیں کھیل سکتی؟ کیوں میرے باپ کی عزت کی ساری ذمہ داری میرے کاندھوں پہ ہے؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک بار شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے ہم سب ماموں کے گھر جمع تھے۔ ہمارے خاندان کے سب لڑکے اوپر چھت پہ موجود تھے۔ ہلا گلا عروج پہ تھا۔ مجھے اور میری کزن کو اوپر کے کمرے سے استری لینے جانا تھا مگر میرے والد نے انتہائی تلخ لہجے میں یہ کہہ کر منع کیا تم دیکھ نہیں رہی کہ اوپر کیا ہو رہا ہے؟

آوازیں سننے کے باوجود اوپر جا رہی ہو۔ میں سہم کے بیٹھ گئی مگر یہ سوچ کئی دن تک مجھے تنگ کرتی رہی کہ ایسی موج مستی کی اجازت صرف لڑکوں کو ہی کیوں؟ اور ہمارے لیے بند کمرے، جہاں قہقہوں کا شور تو چھوڑو، ہنسی کی جھنکار کے داخلے کے لیے بھی دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ دینی اور قومی تہواروں پہ ہی سڑکوں کا ہجوم دیکھ لیں۔ ہر عمر کے لڑکے بالے اکٹھے ہو کے کیا کیا کھیل تماشے کرتے ہیں۔

گھر میں لڑکے کی پیدائش پہ ہر بار مبارکباد کے ساتھ مٹھائی کا ڈبہ لازم ہے۔ لیکن یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش پہ تو مبارکباد بھی آنا بند ہو جاتی ہے وہ لوگ جن کا ان کی پرورش سے لے کر جہیز کے اخراجات کی ذمہ داری تک کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ بھی یہ کہنے لگتے ہیں"ہائے ہائے، اس بار بھی بیٹی" اب یہ ہائے ہائے رشک والی ہے یا ترس والی، باشعور خوب اندازہ لگا سکتے ہیں۔

بیٹا یا بیٹی کی پیدائش پہ کسی انسان کا اختیار نہیں، پھر یہ ناشکری کیوں؟ اور اگر پے در پے بیٹیوں کی پیدائش پہ اعتراض ہے تو ایسے لوگوں کو بہبودِ آبادی محکمے میں ملازمت کر لینی چاہیے اور اس اشتہار کی تشہیر کرنی چاہیے کہ "بچے دو ہی اچھے" مگر ایسے لوگ دو بچوں پہ اکتفا کرنا بھی مرد کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جب تک چار پانچ بچے نہ ہوں تب تک کیسے پتہ چلے کہ شادی میں محبت قائم ہے۔

مرد عورت سے جسمانی طاقت میں افضل ہے اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ ایسے اختیار ودیعت بھی کیے ہیں جو عورت کو حاصل نہیں، سچ ہے مگر کہیں بھی عورت کے وجود کی تذلیل کا حکم نہیں۔ میں تو حیران ہوتی ہوں کہ یہ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ کی عدالت لگی ہوگی تو اس انسان کی خطائیں رب بخش دیں گے جس نے محبت اور نیک نیتی سے اپنی بیٹیوں کی پرورش کی ہوگی کیونکہ اس کی بیٹیاں خود رب کے حضور اپنے باپ کے لیے سفارش کریں گی۔

تو ہم انسانوں کو تو بیٹی کی پیدائش پہ جشن منانا چاہیے مگر نہیں۔ رحمت کی حقارت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ہمارے معاشرے کی عورت جو خود نفس نازک بن کے اتری ہو، وہ بیٹی کی بجائے بیٹے کی پیدائش کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتی ہے۔ بس یہ ہی وجہ ہے جو میں مرد سے برابری چاہتی ہوں تاکہ بیٹیوں کی پیدائش کا جشن بھی بیٹوں کی طرح منایا جائے مجھے مرد سے مقابلہ نہیں کرنا بس مجھے میرے اس دنیا میں پیدا ہو کے آنے کا فخر چاہیے۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz