Army Chief Aur Tehreek e Insaf
آرمی چیف اور تحریک انصاف
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے اور پارٹی چیئرمین اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر۔ بلاشبہ اس دعوے میں کوئی دو راے نہیں۔ مخالفین بھی اس بات پہ متفق ہیں بلکہ وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان پہلے اسلیے لاڈلا تھا کہ وہ ایک ہینڈسم شخص تھا اب اس لیے لاڈلا ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر ہے۔ مگر موجودہ وقت کا یہ سب سے بڑا سچ ہے کہ عمران خان کا بیانیہ جو کہ جھوٹا تھا رجیم چینج سے متعلق، وہ پہلے دو جلسوں میں ہی ہٹ ہو گیا تھا۔
حالانکہ أس وقت بہت سے صحافیوں نے تنقید بھی کی کہ عمران خان کچھ جرات پکڑیں اور اپنی سلطنت کا تختہ الٹنے والے کا برملا نام لیں۔ مگر عمران خان اس وقت اتنی ہی جرات کر پائے کہ ملک کے اندر اپنے دشمنوں کو فقط میر جعفر اور میر صادق کہہ سکے اور بعد میں نیوٹرل، جانور اور مسٹر ایکس وائی زی۔ ملک کے بیشتر تجزئیہ نگاروں کی طرح مجھے اس دن کا شدت سے انتظار ہے جب میر صادق اور میر جعفر یا مسٹر ایکس وائی زی کی درست اصطلاح پورے پاکستان کے سامنے واضح ہو گی۔
خیر اس وقت بھی عمران خان کے گرد حمایتوں کا ایک بڑا مجمع ہے انھیں سپورٹ کرنے والوں میں صحافی، ان کے پارٹی ممبر سمیت ملک کے عام شہری بھی شامل ہے۔ حالانکہ یہ جملہ بھی خوب بکتا ہے جو صحافی یا اینکر عمران خان کے خلاف بولے وہ بکاؤ اور لفافہ، مجھ سمیت کئی لوگ عمران خان کے خلاف لکھتے ہیں مگر فقط اس لیے کہ قوم کو یہ شعور آسکے کہ پاکستانی سیاست دان اگر ملک کا بھلا سوچنے لگیں تو ان کی سیاست کی دکان بند ہو جائے گی، مگر کمال ہے میرے ملک کے عام شہری، آنکھوں دیکھی مکھی نگلتے ہیں اور پھر بیمار ہونے کے بعد علاج بھی اپنے خون پسینے کی کمائی سے کرنے کے بعد خاموشی سے قبر میں اتر جاتے ہیں۔
میں بار بار اپنے مختلف کالمز میں لکھ چکی ہوں کہ ستائیس مارچ کو عمران خان نے جس خط کو امریکی سازش کا نام دیا وہ فقط وزارت عظمیٰ کی کرسی کی ٹوٹی ٹانگیں بچانے کے لیے تھا اب وہی امریکہ ہے جس سے روابط بحال کرنے کے لیے عمران خان صاحب دوبارہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ شائد انھیں اس بات کا یقین ہے کہ الیکشن ہونے کے بعد وہی دوبارہ وزیراعظم بنیں گے۔ تب وہ امریکہ سے قرض کیسے مانگ سکیں گے؟ آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ تو انھوں نے اس نیت سے توڑا تھا کہ جانتے تھے چار و ناچار وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑنے کا وقت آ چکا ہے لہذا اب قوم جانے اور قوم کے نئے حکمران۔ میں اس جھنجھٹ سے بری الزماں ہوا۔
لیکن اب جبکہ نئے الیکشن میں وہ پھر سے خود کو وزیراعظم بنتے دیکھ رہے ہیں تو امریکہ سے تعلقات کی بحالی کے متمنی نظر آتے ہیں۔ آخرکار وہ دانا آدمی ہیں جانتے ہیں کہ "سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بیر ممکن نہیں" مگر ان کی دانائی پہ اش اش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جس وقت انھیں سمندر سے نکال کر باہر پھینکا گیا تو انھوں نے اسی مگرمچھ کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔
خیر امریکہ سے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام، مگر اس وقت تو عمران خان کی دیرینہ حسرت انھیں پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی جس کی خاطر انھوں نے گرمی، حبس، بارش، طوفان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جلسوں کی تعداد میں کمی نہ آنے دی۔ قوم کو شعور دیتے رہے کہ نیا آرمی چیف اسی وقت محب الوطن تعینات ہو سکتا ہے جب اس کی تقرری وہ خود کریں گے ورنہ تو ملک کو نقصان ہی بہت ہے۔
ان کی سلطنت کا تختہ کیوں الٹا؟ اور کس وجہ سے وہ ایوانوں کے ٹھنڈے کمروں سے نکل کر تپتی دوپہروں میں جلسے کرنے پہ مجبور ہوئے؟ اس کی کڑیاں کہیں نہ کہیں موجودہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن یا نئے آرمی چیف کی تقرری سے جڑی ملیں گی۔ اور جوں جوں نومبر قریب آ رہا ہے یہ تقرری ایک جنون کی طرح سابقہ وزیراعظم کے دماغ پہ سوار ہے۔ حالانکہ موجودہ حکومت جسے یہ تقرری کرنی ہے ان کی طرف اس معاملے میں ہونٹ بند ہی ملتے ہیں مگر عمران خان نے تقرری کے حوالے سے کہرام مچا رکھا ہے۔ گزشتہ روز ایک نیا مشورہ سننے کو ملا کہ جب تک الیکشن نہیں ہوتے اور وہ جیت نہیں جاتے تب تک قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دی جائے اس کے بعد وہ وزیراعظم بن کے تقرری کریں گے ساتھ ہی انھوں نے مخالفین کو یہ تنبیہ بھی کی کہ میرے حکومت گرانے میں جو جو ملوث تھا اسے کسی صورت معافی نہیں ملے گی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا آرمی چیف کی تقرری کرنے کا اختیار صرف عمران خان کو حاصل ہے؟ ملک بنے پچھتر سال گزر چکے ہیں اور ان پچھتر سالوں کے دوران 2019 میں عمران خان کو یہ حق ملا تھا کیا اس کے بعد اب جتنے بھی آرمی چیف تعینات ہوں گے ان کی تقرری عمران خان کی صوابدید پہ ہو گی؟ اور اگر ہو گی تو کیوں؟ فوج ریاست کا ایک الگ اور مضبوط ادارہ ہے وہ کسی وزیر اعظم کی ذاتی ملکیت نہیں۔ مگر عمران خان کی خود پرست فطرت صرف وہی درست سمجھتی ہے جو وہ سوچتے اور کرتے ہیں۔