Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Andhi Taqleed Ya Tabahi

Andhi Taqleed Ya Tabahi

اندھی تقلید یا تباہی

ملک میں اس وقت سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے نہ صرف میڈیا پہ بلکہ گھروں، محلوں، سڑکوں اور اب تو ملک سے باہر بھی۔ پارٹی بازی کا جنون پاکستانیوں پہ ایسا سوار ہے کہ ہر کوئی دوسرے کے سامنے تن کر کھڑا ہے۔

ایوانوں کا سیاسی دنگل تو سمجھ میں آتا ہے اقتدار کی خاطر وہ ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ہر کسی کو لگتا ہے کہ میں اپنی جگہ دیانتدار ہوں حالانکہ ہے یہ سارا کرسی کا کھیل جس میں ان سیاست دانوں نے سادہ عوام کو بھی پاگل بنا رکھا ہے۔ اگر ذرا سا دانشمندی اور ہوش سے کام لیا جائے تو اصل حقائق جو سامنے آئیں گے وہ کچھ یوں ہیں کہ ان سیاست دانوں کی یہ جنگ انفرادی نوعیت کی ہے اس میں قوم کا مفاد کہیں نہیں۔

خیر میرا موضوع تحریر آج یہ بتانا نہیں، کہ کون غلط ہے اور کون صحیح؟ بلکہ میں تو سوال پوچھنا چاہتی ہوں اپنی اس قوم سے، جو ان سیاسی جماعتوں کی حمایتی بنی آپس میں جھگڑ رہی ہے۔ کس باعث یہ اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔

ایوان کل بھی کچھا کھچ بھرا تھا ایوان آنے والے دور میں بھی یونہی سیاست دانوں سے بھرا رہے گا تو عوام کا آپسی جھگڑا کس لیے؟

ایک عام آدمی تو کل بھی اپنے خون پسینے کی روٹی کھا رہا تھا ایوانوں سے تو من و سلویٰ اس کے لیے کبھی بجھوایا نہ گیا کبھی عام آدمی کے گھر میت ہو یا خوشی۔ سارے فرائض وہ خود ہی نپٹاتا ہے کیا کبھی اس کی پسندیدہ پارٹی کا راہنما یا اور کوئی ممبر اس کے دکھ سکھ کا ساتھی بنا ہے؟

میں ایک عام شہری ہوں اور میرے دکھ سکھ کے ساتھی وہ لوگ ہیں جو میری طرح عام حیثیت رکھتے ہیں کبھی میرے مسائل کو حل کرنے کوئی سیاسی راہنما نہیں آیا بلکہ اپنی مشکلات لے کر جب ہم ان کے پاس جاتے ہیں تو جب تک کسی کی سفارش نہ ہو اس بڑے انسان کے کمرے کے پاس بھی مجھے کوئی کھڑا نہیں ہونے دیتا۔ مگر میرے پہ اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو میرے پڑوسی، میرے دفتر کے ساتھی، میرے رشتے دار وہ سب بنا بلائے آتے ہیں تو کیوں ان بڑے لوگوں کے لیے جن کے لیے میری تکلیف یا خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی میں کیوں جھگڑا مول لوں؟

روز بہ روز پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اس سیاسی جنگ نے خطرناک صورت اختیار کرلی ہے عدم برداشت کی یہ صورت تعلقات کے خسارے کا باعث بن رہی ہے سیاسی تفریق اب دلوں میں تفریق لانے لگی ہے۔ جب کہ سیاست بنیادی طور پر انسانوں کے روزمرہ مسائل حل کرنے اور انہیں قریب لانے کا نام ہے۔

ایسی سیاست جو نفرتیں پیدا کرے، دوریاں لے آئے، وہ کچھ اور ہو یا نہ ہو سیاست قطعی نہیں۔ ملک خانہ جنگی کی حالت میں ہے مگر مجال ہے کسی راہنما کی طرف سے بیان چلا ہو کہ عوام برداشت سے کام لے بلکہ عوام کو تو ہر دو گھنٹے بعد بیان چلا کر مزید اکسایا جا رہا ہے افسوس کا مقام ہے کہ یہ صورتحال بیرون ممالک میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔

باہمی گفتگو کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ تعلقات میں احترام نام کی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی۔ ایسے ایسے سنجیدہ احباب کی زباں بگڑ رہی ہے کہ دیکھ اور سن کر حیرت اور رنج کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

درجنوں دوست و احباب ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر انفرینڈ کر چکے ھیں، گھریلو تعلقات بھی باہمی تفریق اور بے ادبی کی صورتحال سے دو چار ھیں۔ کیا یہ مناسب ھے کہ ھم ایک ایسی صورت حال کی وجہ سے آپس میں بدظن ھوں جس میں براہِ راست ھمارا کوئی ہاتھ بھی نہیں۔ اور نہ ہی اس سے ہمارا مفاد جڑا ہے میں آج بھی اپنے مستقبل اور حال کے خود کوشاں ہوں اور کل بھی ایسے ہی ہو گا۔

ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے مجھے ارفع ٹاور جانا تھا گیٹ کے پاس سے گزرتے ہوئے کسی نے شرارت سے گارڈ کے پاس آ کر زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

گارڈ نے ان سنا کیا وہ شخص قریب آیا اور بولا خان! ناراض ہو، آج نہ سلام نہ دعا۔

گارڈ بولا اب تمھارا ہمارا کوئی بات نہیں ہو سکتا، ہمیں ملک کی آزادی پیاری ہے چوروں اور غداروں سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔

وہ شخص بھی کرختگی سے بولا تو جاؤ پھر اپنے جھوٹے نیازی کو کہو تمھیں بھی یہاں سے لے جائے صبح صبح دماغ خراب کر دیا۔

ان دونوں کی گفتگو سن کر میں ششدر رہ گئی وہ دونوں باقاعدہ جھگڑا کرنے پہ اتر آئے جبکہ غلط دونوں ہی نہیں تھے ایسی گندی سیاست نے ایک عام آدمی کو بھی بدتہذیب اور چڑچڑا بنا دیا ہے زندگی کے جھمیلے پہلے کیا کم تھے کہ اس کرسی کی جنگ کی آگ نے پورے ملک کی عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

مجھے اور میرے جیسے عام لوگوں کو تو اپنے جیسے سادہ اور مجبور انسانوں کی زندگیوں کو سہل بنانا ہے یہ دین کہتا ہے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے دین کے بتائے راستے کو اپنائیں، کہیں ایسا نہ ھو کہ لیڈروں کی وجہ سے دین، اخلاقیات اور ایمان کو ہاتھ سے گنوا بیٹھیں۔

افواہیں پھیلانے والے عناصر کا حصہ نہ بنیں، یہ مفاد پرست لوگ جھوٹ پر مبنی تصاویر، ویڈیوز، پوسٹیں دکھا کر، ہماری اندھی تقلید کا سہارہ لیتے ہوئے ہمارے ہی ذریعے سے معاشرے میں نفرت پھیلا رہے ہیں جسکی وجہ سے عدم برداشت بڑھ رہی ھے۔

پیار و محبت کو پروان چڑھائیں، اچھے معاشرے کے مہذب شہری بنیں۔ عہد کیجیے کہ حالات کی اس آندھی کو جو سب کچھ اڑا لے جانے پہ بضد ہے اسے اپنے اوپر اثرانداز کرنے کی بجائے روکنے کی سعی کریں۔

ایک دوسرے کا ہاتھ پھر سے محبت سے تھام کر ملک کی بقا کے لیے قدم آگے بڑھائیں ایک قوم بنے رہنے میں مفاد ہے اگر بکھر گئے تو دشمن ہمیں خاکستر کر دے گا۔ باہمی احترام کے ساتھ گفتگو کریں مگر اپنی بات کہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کی بھی سنیں، ملک تب ہے جب ہم ایک ہیں ورنہ یہ مٹ جائے گا اور اگر یہ ملک مٹ گیا تو ہمارا وجود کیا قائم رہ پائے گا؟ اس لیے آندھی تقلید کا حصہ بننے کی بجائے رہتے وقت میں ہوش کے ناخن لینا وقت کا تقاضا ہے۔

رب تعالیٰ ہم ہدایت عطا فرمائیں۔

Check Also

Jab Aik Aurat Muhabbat Karti Hai

By Mahmood Fiaz