Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. Almiya

Almiya

المیہ

بیٹے کی خواہش ہمارے معاشرے کی ایسی منفی سوچ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی یہ خواہش شدت کی رو میں بہتی جا رہی ہے۔ میں بسا اوقات اس سوچ میں ڈوب جاتی ہوں کہ بالآخر اولادِ نرینہ کی طلب کیوں مشرقی معاشرے میں منفیت کی طرف بڑھ رہی ہے؟ مگر ہر بار گہرے خیالوں میں غوطے کھاتی سوچ اس نقطے پہ آ کر رک جاتی ہے کہ بیٹی کو بوجھ بنانے والے بھی ہم خود ہی ہیں۔

بیٹی کے ذمے پورے خاندان کی عزت لگا کے ہم خود کو غیرت مند سمجھتے ہیں۔ بیٹی باپ اور بھائیوں کی عزت اپنے ناتواں کندھوں پہ اٹھائے اگر کبھی ڈگمگا جائے تو اس کی غلطی کو یہ معاشرہ پورے خاندان کے لیے سزا بنا دیتا ہے۔ جہیز کی لعنت سمیت، بیٹی کی شادی والدین کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ ماضی قریب میں حکومت نے جہیز کو ختم کرنے کے لیے جو اقدام اٹھائے کہ کسی طور اس عذاب سے چھٹکارا پایا جاسکے۔

مگر ہم فرسودہ رسموں میں جکڑے نام نہاد دین کے پیروکار جہیز کی بندش سے نکلنے پہ راضی نہ ہوئے۔ حکومت بھی کچھ وقت شور مچا کے پھر خاموش ہوگئی، یہاں تک کہ حکومت نے ایک وقت شادیوں کے کھانے پہ ون ڈش کی پابندی بھی رکھی مگر عوام نے اسے بھی قبول نہ کیا۔ یہ سن 2020 کی بات ہے، جب کرونا مرض اپنے عروج پہ تھا، ہر طرح کی تقریبات پہ پابندی تھی ایک روز پارلر جانے کا اتفاق ہوا۔

وہاں پہ دو خواتین کی گفتگو سن کے مجھے اپنے ملک کے اسلامی ہونے پہ شرمندگی ہونے لگی، وہاں دو خواتین میں سے ایک فرما رہی تھی کہ "میری نند نے بھی کرونا مرض کے ہونے کا خوب فائدہ اٹھایا، بیٹی کا رشتہ طے تھا لڑکے والوں پہ زور ڈالنے لگی کہ بیٹی کے فرض سے جلد سبکدوش ہونا چاہتی ہوں۔ وہ جانتی تھی ان دنوں میں لڑکے والے بارات کے نام پہ چار لوگ ہی لائیں گے۔

نہ ان کی خدمت میں دس پکوان پیش کرنے پڑیں گے اور باقی کام بھی اونے پونے میں نمٹ جائے گا دوسری خاتون بھی اس ساری گفتگو کا خوب مزہ لے رہی تھی، وہ دونوں اس سچ کو بھول چکی تھیں کہ سادگی سے نکاح کا حکم ہمارا دین ہمیں دیتا ہے اور شادی کی بےجا رسومات اور اس پہ کی فضول خرچی غیر اسلامی ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں ایک اور دیرینہ رسم چلی آ رہی ہے کہ والدین کا گھر بیٹیوں کے لیے کبھی بھی اپنا نہیں ہوتا۔

اسے صبح شام یہ ہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ تمھیں جلد اس گھر کو چھوڑ کر جانا ہے یہ گھر تمھارا نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹوں کی خواہش اس لیے بھی کی جاتی ہے، کیونکہ ہمارا معاشرتی نظام مشترکہ خاندانوں پہ مشتمل ہے۔ ایک ہی گھر میں بہت سے خاندان رہتے ہیں، بیٹوں کی بےجا خواہش کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہماری معاشرتی بنیادوں میں یہ رسم جڑ پکڑ چکی ہے کہ بیٹیاں والدین کے گھر میں مختصر وقت کے لیے مہمان ہوتی ہیں۔

بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ وہ بن بلائی مہمان ہوتی ہیں، جن کی خواہش بھی نہ کی جائے اور وہ گھر میں آ جائیں۔ پھر کچھ وقت بعد ان بن بلائے مہمانوں کو یہ سمجھا کر الوداع کہ دیا جاتا ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ تمھیں تمھارے اصلی گھر بھیج دیا جائے، حالانکہ سچ تو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کا کوئی گھر ہے ہی نہیں۔ بیٹی بیوہ ہو جائے یا طلاق یافتہ، کوئی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

بس خواہ مخواہ کا دلاسہ دے رکھا ہے کہ سسرال ہی عورت کا اصلی گھر ہے۔ والدین بیٹوں کی خواہش اس لالچ میں بھی کرتے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام کے باعث بیٹے ہمیشہ ہمارے پاس رہیں گے، والدین کے بڑھاپے میں ان کی لاٹھی بنیں گے، ان کے نان نفقے کا بندوبست کریں گے، بوڑھے والدین کی دوا دارو کی ذمہ داری اٹھائیں گے، بیٹے کے ساتھ بیاہی عورت اس گھر کو سنبھالے گی۔

یوں کہہ لیجیے والدین بیٹے کی پیدائش کی خواہش اس غرض میں کرتے ہیں کہ ان کا بڑھاپا محفوظ ہو جائے گا اور جتنے بیٹے زیادہ ہوں گے نسل بھی اسی قدر بڑھے گی اور اگر بیٹیاں زیادہ ہوں گی تو معاشرتی رسومات کی پاسداری میں والدین اس خوف میں رہیں گے کہ کہیں ان کے بہکتے قدموں کے باعث خاندان کی عزت داغدار نہ ہوں یا پھر بیٹیاں ہنس کے قبول کر بھی لی جائیں۔

خوف خدا رکھنے والے والدین ان کی پرورش میں کوئی کسر نہ بھی رکھیں، تب بھی وہ سدا والدین کے گھر میں بسیرا نہیں کر سکتی۔ کیونکہ معاشرے کے اصول کے مطابق والدین کا گھر ان کا کبھی اپنا نہیں ہوتا اور بیٹے میں لاکھ اخلاقی عیب ہوں تب بھی وارثت اور معاشرتی اصول کے عین مطابق وہ والدین کے گھر کا اصل وارث ہے۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa