Afghanistan Aur Taliban
افغانستان اور طالبان
افغانستان میں کون جیتا کون ہارا؟ یہ کہانی پھر سہی۔ وقت بتائے گا۔ کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے سے وہاں کی عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ یا پاکستان کے ساتھ تعلقات کس حد تک خوشگوار ہوئے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے۔ کہ پاکستان ہمیشہ مسلم ممالک سے خوشگوار تعلقات کا متمنی رہا ہے۔ اور اسِ سے پہلے بھی ۱۹۹۶ میں افغانستان پہ طالبان حکومتی اقتدار کو تسلیم کیا تھا۔ اب بھی پاکستان ہمسائیہ ملک سے خاتمہِ خانہ جنگی صورتحال سے خوش ہے۔ اور خطے میں امن کی پالیسی پہ عملدرآمدگی کا خواہشند ہے۔
مگر کابل پہ طالبان کے کچھ ہی گھنٹوں کے قبضے کے بعد عوام میں خوف کی سنسنی پھیل گئی۔ فی الحال تو تمام دانشوروں کو صرف ایک ویڈیو دیکھ کر افغان عوام کی بے بسی کا اندازہ کر لینا چاہیے۔ سی ون تھرٹی کے پروں سے مکھیوں کی طرح چمٹے انسان افغانستان سے زندہ بھاگنے کی لاحاصل کوشش میں مصروف۔ المناک صورتحال ہے۔ ائیر پورٹ پہ افغان عوام کا جمِ غفیر۔ 3 انسان سی ون تھرٹی سے لٹکے ہوئے بلندی سے گر کر مر گئے۔ معتدد زخمی۔ یعنی یقینی موت دیکھ کر بھاگنا چاہتے ہیں۔ اور موت ہی کے لیپٹے میں آ گئے۔۔ یہ کیسی ہار ہے؟ کیسی جیت ہے؟ جس میں نقصان انسانیت کا ہو رہا ہے عام افغانی بڑی طاقتوں کی مفادات کی جنگ میں پس چکی ہے۔
گو کہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ مگر عوام پھر بھی مبتلائے خوف کیوں؟ بچیاں سکول جانے سے خوفزدہ۔ خواتین میں ملازمت سے متعلق ڈر وہراس۔ خدا زندہ رہنے کی خواہش میں موت کو گلے لگانے والی صورتحال کسی قوم کو نہ دکھائے۔ پھر کیا کسی بھی ریاست میں غیر مسلم جن کی تہذیب و ثقافت میں پردہ یا حجاب روا نہیں۔ اُن خواتین کو سختی سے پردے کا پابند کرنا درست فعل ہے۔ (ہاں اگر غیر مسلم خواتین اپنی رضا سے حجاب یا نقاب کرنا چاہیں تو یہ خوش آئن بات ہے۔)جیسے ہم مغربی ریاستوں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ اُن ممالک میں اسلامی روایات کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ خواتین کو پردے سے نہ روکا جائے کیونکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
سعودی سفارت خانہ کے ساتھ ساتھ بیشتر ممالک کے سفارتی دفاتر افغانستان میں بند کر دئیے گئے ہیں۔ سعودی حکومت کا سفیروں کو فوراً زمینِ افغان چھوڑنے کا حکم نامہ جاری۔ کیوں؟ پاکستانی میڈیا بھی سوال اٹھا رہا ہے کہ طالبان خواتین، غیر مسلمز اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق اب کیا لائحہ عمل آئندہ وقت میں اختیار کریں گے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کچھ حلقوں میں جہاں طالبان اقتدار کو اسلام کی جیت کہا جا رہا ہے تو پھر افغان عوام اور بین الاقوامی سطح پر اس بارے میں خوف و ہراس کا جواز بنتا نہیں ہے یا پھر شدت پسند روئیوں کا ڈر آڑے آ رہا ہے۔ خیر ان تمام سوالوں کا فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں۔ دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
ابھی فی الوقت تو افغانستان کی اشرافیہ عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگ گئی۔ 20 سال میں اربوں ڈالرز کی امداد کے باوجود افغانستان کی حکومت اپنی عوام کو رتی ماشے کا فائدہ نہ دے سکی۔ اب عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر بھاگ نکلی۔ مستقبل میں سابقہ شدت پسند عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں وقت بتائے گا۔
فی الحال تو ہر فریق اپنی اپنی فتح کا جشن منا رہا ہے۔ انسانی المیے کی نہ پہلے کسی کو فکر تھی نہ اب ہے۔ عام انسانی جانوں کا نقصان کون خاطر میں لاتا ہے کیڑے مکوڑوں کی طرح ان کو کچل دیا جاتا ہے۔ چاہے وہ امریکہ ہو یا انکی آشیرباد سے قائم حکومت اور اب موجودہ آنے والے عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں وہ بھی جلد معلوم ہو جائے گا۔