Adab Walay
ادب والے
آج کے دور میں ہر شخص علم یافتہ اور باشعور ہے۔ وقت بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو ہر شخص نصیحت کرتا ملے۔ جیسے اس سےزیادہ علم و فہم کسی اور بخشا ہی نہ گیا ہو گا۔ میری نظر سے کچھ عرصہ پہلے ایک جملہ گزرا "ادب والوں کی محفل میں تمھیں بےتحاشا بےادب ملیں گے"۔
بات کچھ ہضم نہ ہوئی۔ ادب والے اور بےادب، کیا یہ دو الگ الگ فطرت کے لوگ نہیں۔ یہ یہ دو الفاظ تو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ادب والے تو علم و تہذیب کے رکھوالے ہوتے ہیں اگر اس محفل مں بھی بےادب شامل ہو گئے تو نسلوں کی تباہی کو پھر کوئی نہیں روک سکتا۔
مگر جملہ لکھنے والے نے اپنا تجربہ لکھا۔ جس سے وہ گزر چکا ہو گا۔ یہاں میں وضاحت کر دوں۔ ادب والے وہ لوگ جو ادب کی کسی نہ کسی صنف سے وابستہ ہستیاں ہیں۔ جیسے افسانہ نگار، کالم نگار، سٹوری رائٹر، شاعر یا مصنف، مصور وغیرہ۔۔ یہ تمام وہ شخصیات ہوتی ہیں جو سرمایہء ادب کو نسل در نسل منتقل کرنے کی ذمےدار ہیں۔ تو کیا ان میں مادہ برداشت اتنا ہے کہ یہ دلائل کے ذریعے اپنے نکتہ بیاں کو ثابت کریں۔ نہ کہ جھگڑے کا ماحول پیدا کریں۔
اب جدید دور ہے ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا زمانہ۔ اب ادبی محفلیں عمارتوں میں کم اور موبائل کی شوشل ایپس یہ لگتی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ فیس بک ہے اور سب سے زیادہ مذہبی اسکالرز اور دانشور بھی آپ کو اس جگہ ملیں گے۔ فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد 90 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 6.4 ملین مرد اور 2.7 ملین خواتین شامل ہیں۔ پاکستان دنیا کا 27 واں بڑا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ فیس بک استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی اس جگہ آپ کو فارغ البال لوگ بھی ملیں گے جن کا کام صرف کمنٹ در کمنٹ جھگڑا کرنا اور اپنی انا کو تسکین پہنچانا ہے۔
کچھ مثالیں پیشِ نگاہ ہیں۔ پچھلے دنوں ایک صاحب(کالم نگار) نے اپنے فیس بک اکاونٹ پہ پوسٹ لگائی جس میں بوڑھے میاں بیوی کی تصویر تھی اور موصوف کے تصویر پہ الفاظ تھے کہ میں بھی تمھارے ساتھ یہاں تک آنا چاہتا ہوں۔ اوپر سے میری خراب قسمت موصوف کی پوسٹ پہ ہنسنے کا ایموجی بھیج دیا۔ محترم سیخ پا ہوئے۔ اور کمنٹ باکس میں ٹیگ کر کے وجہ دریافت کی۔ کہ مجھے میری پوسٹ پہ ہنسنے کی وجہ بتائی جائے۔ اب اس ملک میں خیر ایسا کوئی بھی قانون نہیں۔ جو کسی کو ہنسنے پہ سزا دیتا ہو۔ مگر اُن صاحب کے نزدیک اُن کے مدبرانہ الفاظ پہ ہنسنا گستاخی کے مترادف ہے۔ اب اگر ایک کالم نگار اپنے الفاظ پہ صرف تحسین بھرے الفاظ سننے کا خواہش مند ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ درخواست کی جناب اس بار غلطی ہو گئی اگلی بار آپ کی پوسٹ کو دیکھنے کی جرات بھی نہ کریں گے۔
لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپ جو کہیں یا سوچیں۔ تمام دنیا اس سے متفق ہو کیونکہ اس زمانے میں اب نہ تو کوئی بہلول دانا موجود ہے۔ اور نہ مولانا رومی اور نہ ہی اب حکیم لقمان جیسی ہستیاں بآسانی دستیاب ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے۔ جن کے کہے پہ صدیوں سے لوگ متفق ہیں۔ کیونکہ حکمت و دانائی خداداد نعمت ہے۔ ایک شخص سنجیدہ صورت بنائے اسے حاصل کر لے۔ تو حکمت ٹکے کے بھاؤ بکنی شروع ہو جائے گی۔
خیر ایک اور واقعہ گوش گزار کرتی ہوں۔ ادب کا ایک اور نام، فیس بک کے ایک ادبی گروپ(بقول ایڈمنز وہ ادبی گروپ ہے مگر ممبران ادب سے خالی) اُن صاحب کی پوسٹ نظر سے گزری۔ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنا مکمل تعارف بھی سجا رکھا تھا۔ یعنی وہ شخص بیک وقت کالم نگار، افسانہ نگار، مبصر، سٹوری رائٹر، اینکر اور پتہ نہیں کیا کیا تھے۔ سوال کیا جناب کیا آپ کا صرف نام لکھ دینا ہی آپ کا مکمل تعارف نہیں۔ کیونکہ اگر آپ ادب کی مایہ ناز ہستی ہیں۔ تو آپ کو تو کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔ ایک شخص کامیابیوں کی بلندی کے ساتویں آسمان پہ براجمان ہے۔ تو کیا وہ ایک ایک موڑ کا ساتھ حوالہ جوڑے۔ یہ مناسب نہیں لگتا۔ خیر موصوف کافی حد تک سمجھدار تھے۔ بات شائستگی سے مگر اسی گروپ کی ایک خاتون ایڈمن جو اُن کے مداحوں میں سے ایک تھیں۔ گفتگو کے درمیان ٹپک پڑی اور ارشاد فرمایا کہ آپ اپنی بےتکی اور بےسرو پیر باتیں اپنے پاس رکھیں۔ ایسے سوال نہ اٹھائیں تو بہتر ہے۔۔ اب اُس جواب کے بعد گھنٹوں تک سوچتے رہے کہ ایسے ادبی لوگوں کے درمیان تو ہمارا گزارا شائد مشکل نہیں، ناممکن ہو۔ تو بہتر ہے الوداعی سلام کہا جائے۔
تو جناب مناسب ہے کہ ان ادب والے بےادبوں سے رسم وراہ نہ بڑھائی جائے۔ اور اس نکتے کو اصول بنا لیا جائے۔ "کہ موجودہ وقت میں کسی سے بحث نہ کریں اگر کوئی کہے کہ ہاتھی اڑتا ہے تو کہہ دیں جی جناب ابھی ابھی اسے اڑنے کے بعد درخت پہ بیٹھے دیکھا ہے۔"