Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hania Irmiya
  4. 14 September Conference

14 September Conference

چودہ ستمبر کانفرنس

حکومت کا سولہ ستمبر سے تمام تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان! چودہ ستمبر ۲۰۲۱ کو بین الصوبائی کانفرنس میں لیے گئے فیصلے اور ان فیصلوں کا تعلیمی شعبے پہ اثر۔ بظاہر تو فیصلے مدبر افراد کی قابلیت کا پتہ دیتے ہیں مگر کیا ان کے نتائج بھی ان کی کہی باتوں کے مطابق برآمد ہوں گے بلاشبہ اس کا پتہ آنے والا وقت دے گا۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیرصدارت بتیسویں بین الصوبائی وزراء تعلیم کانفرنس میں اہم فیصلے کئے گئے۔ طے کیا گیا ہے کہ اسکولز فوری طور پر کھولے جائیں اور اس بارے این سی او سی کو سفارش کی جائے گی۔

مگر اس کانفرنس کے بیانات میڈیا پہ آنے کے بعد تقریباً ایک گھنٹے بعد وفاقی وزیر اسد عمر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پنجاب کے 5 اضلاع لاہور، فیصل آباد، ملتان، سرگودھا اور گجرات میں بندشیں قائم رہیں گی۔ ان اضلاع کے علاوہ 16ستمبرسے 50 فیصد حاضری کے ساتھ تعلیمی ادارے کھولے جائیں گے۔

دونوں خبریں ایک دوسرے سے متصادم نہ تھیں مگر دو گھنٹوں بعد شفقت محمود اور مراد راس دونوں کے ٹوئیٹ سے یہ بات واضح ہوئی کہ لاہور سمیت سولہ ستمبر سے تمام تعلیمی ادارے پچاس فیصد حاضری سے کھولے جائیں گے۔

جو میں مانتی ہوں وزراءتعلیم کا ایک بہتر فیصلہ ہے کیونکہ ان لمبی تعطیلات کے باعث بچے نہ صرف تعلیم سے دور ہو گئے ہیں بلکہ ان کے روزمرہ کے اوقات بھی بچپن والے نہیں رہے ایک وہ وقت تھا جب بچے سارا دن کے تھکے ہارے عشا سے پہلے سو جایا کرتے تھے پھر اگلی صبح سکول جلدی جانے کی فکر بھی رات بھر اٹھنے نہ دیتی تھی ایک یہ آج کا وقت ہے بچے رات دو بجے تک جاگتے ہیں اور اگلی صبح بارہ بجے اٹھتے ہیں اس کے بعد عقیدت مندانہ نظریں موبائل فون پہ گاڑے بیٹھے رہتے ہیں۔

جب سکول سے دوری ہو تو ٹیوشن یا اکیڈمیز میں کتنا دل لگا پائیں گے یہ شعبہ تعلیم سے جڑے لوگ بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔

سکولوں کی بندش کو مدنظر دسویں اور بارھویں کے امتحان دینے والے طلبا کو مزید یہ سہولت بھی دی گئی کہ مختلف صوبوں میں ان طلبہ کی پروموشن پالیسی کا فارمولا اپنایا جائے گا انہوں نے کہا کہ تمام صوبے پریکٹیکل میں 50 فیصد گریس مارکس دینگے باقی 50 فیصد تھیوری کی بنیاد پر دیئے جائیں گے۔ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن بھی طلبہ کی پروموشن کے لیے یہی طریقہ کار استعمال کریں گے۔ ایوریج مارکس نکال کر لازمی مضامین میں 5 فیصد اضافی نمبرز دیئے جائیں گے۔ جس مضمون میں طلبہ فیل ہوں ان میں 33 فیصد نمبرز دیئے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ اختیاری مضامین کے مارکس کاؤنٹ کیے جائیں۔

یہاں شفقت محمود اس کہاوت کو پورا کرتے نظر آتے ہیں کہ "اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا۔" تعلیم کے دو سال کی بربادی کا ازالہ کرنے کے مد میں کیے گئے شفقت محمود کے مذکورہ بالا فیصلے سے متعلق میں تھوڑی سی وضاحت کروں کہ دسویں کے طالبعلموں نے صرف چار اختیاری مضامین کے پرچے دئیے ہیں اور بارھویں جماعت کے بچوں سے تین اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے ہیں اس کے علاوہ تمام مضامین کے پریکٹیل لیے بنا اُن کے نمبر لگائے جانے کی سہولت دی گئی تھی۔ لازمی مضامین کے پیپر کورونا کے پیشِ نظر نہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اور موجودہ سال میں بارھویں کے پیپر دینے والے بچوں کو گذشتہ سال بنا امتحان لیے پرموٹ کیا گیا ہے اور اس سال بھی یوں لگ رہا ہے پیپر لینے کا صرف ڈرامہ رچایا گیا تھا۔

کیا حکومت اس سوال کا جواب دے سکتی یے کہ ملک کو جو یہ تعلیم یافتہ نسل دی جا رہی ہے تو کیا واقعی یہ بچے تعلیم کے معیار پہ پورے اترتے ہیں کیونکہ انٹر کے یہ کامیاب طلبہ اگلی سطح پہ اپنے لیے ایک مخصوص شعبے کا انتخاب کریں گے کوئی انجنیرنگ یونیورسٹی جائے گا کوئی میڈیکل، تو کوئی آئی ٹی انفارمینشن ٹیکنالوجی کو اپنے لیے منتخب کرے گا۔

شعور رکھنے والے لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ اس طرح کے امتحان معیارِ تعلیم کا کس طرح جنازہ نکال رہے ہیں جس کا خمیازہ آنے والے وقت میں معاشی بدحالی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ کورونا وبا ملک کے معاشی حالات دگرگوں کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ہزاروں لوگوں کی صحت و زندگی نگل چکا ہے وہیں یہ نسلوں کی تعلیم و مستقبل کو بھی جلد تباہ کر دے گا اور اس بات کا شاہد آنے والا وقت ہو گا۔

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry