Riyasat Junagarh Ka Tareekhi Pasmanzar
ریاست جونا گڑھ کا تاریخی پس منظر
جوناگڑھ کا شمار ان چند ریاستوں میں ہوتا ہے جنہیں آزادی کے وقت بھارت نے طاقت کے نشے میں اپنے اندر شامل کرلیا تھا۔ تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جوناگڑھ ایک مسلم خاندان "بابی" کے زیرانتظام گجرات کی ایک آزاد ریاست تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 1654میں بابی خاندان کے بانی محمد شیر خان بابائی نے کچھ علاقوں کو فتح کیا اور یہاں پر آباد ہوگئے۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد یہ خاندان گجرات پر کنڑول کے لئے لڑتا رہا تاہم محمد خان بہادر خانجی اول نے گجرات سے آزادی حاصل کی اور 1730میں ریاست جونا گڑھ کی بنیاد رکھی۔ اس دور میں جونا گڑھ مراٹھا سلطنت کے زیر اثر ہی رہی۔ 1807میں مراٹھا کی دوسری جنگ کے دوران محمد حامد خانجی نے برٹش راج کے تعاو ن سے مراٹھا سلطنت کا اثرو رسوخ ختم کردیا کیونکہ برٹش راج ہندوستان پر اپنے شکنے مضبوط کررہا تھا اور آزاد، نیم آزاد ریاستیں برٹش راج کے زیر تسلط آرہی تھی۔ ریاست جونا گڑھ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بعد ازاں انتظامی امور کی غرض سے برٹش راج نے ریاست کے کچھ علاقوں کا انتظام علیحدہ سے کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے تقریبا 584 آزاد ریاستیں برصغیر میں موجود تھی۔ ان ریاستوں کو برٹش راج نے ختم نہیں کیا تھا بلکہ ان کی حثییت "ان ڈائریٹ رولز" کے تحت برقرار رکھی گئی۔ "ان ڈائریٹ رولز" برطانیہ اور فرانس کے طرز حکمرانی کا ایک طریقہ تھا جو کہ وہ اپنے نوآبادیاتی علاقوں پر حکمرانی کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔ یہ طریقہ زیادہ تر ایشیاء اور افریقہ کے نوآبادیاتی علاقوں میں استعمال کیا گیا جہاں خاندانی سسٹم کے تحت قائم قدیم ریاستوں کو ختم نہیں کیا جاتا تھا بلکہ کچھ اصول و ضوابط کے تحت ان کی آزاد حثییت برقرار رکھی جاتی تھی۔ ان قوانین میں ریاستوں کے دفاع، بیرونی تعلقات، ٹیکس اور مواصلات پر برٹش حکومت کا کنٹرول کے ساتھ ساتھ ریاست کے باشندوں پر نظر رکھنے کے لئے برطانیہ کے نمائندوں کو ریاست میں خود مختاری دی جاتی تھی۔
آزادی کے بعد برٹش راج کے طرف سے قائم کردہ آزادی ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اگر چاہے تو آزاد حیثیت سے رہ سکتی ہے یا ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی ایک میں شامل ہوسکتی ہے۔ ریاست جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا جس کے بعد بھارت نے فوج کشی کرکے اس ریاست پر قبصہ کرلیا تھا۔ ریاست پر قبضے کی اطلاع بھارت نے ایک ٹیلی گراف کے ذریعہ خان لیاقت علی خان کو دی جس کی پرزور مزمت کی گئی تھی۔ بعدازاں ریاست میں نام نہاد رائے شماری کرواکر اس فیصلے کو عوامی حمایت حاصل ہونے کا راگ آلاپا گیا تھا۔
جونا گڑھ دوسری بڑی مسلم ریاست تھی جب کہ معاشی طور پر پانچویں مضبوط ریاست بھی تھی، جس کی اپنی آرمی اور مضبوط سیاسی نظام بھی موجود تھا۔ تقسیم کے بعد الحاق پاکستان کا فیصلہ جس اسٹیٹ کونسل نے کیا اس میں مسلم اور ہندو نمائندے موجود تھے جس کا مطلب یہ ہوا کہ الحاق پاکستان کے فیصلے میں جونا گڑھ کے عوام کی مرضی بھی شامل تھی۔ 15 ستمبر 1947 تک جونا گڑھ وہ پہلی آزاد ریاست تھی جس نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور الحاق کی دستاویز پر قائد اعظم محمد علی جناح کی منظوری کے بعد دونوں طرف سے دستخط ضبط ہوئے اور اسٹیٹ ہاؤس کے اوپر پاکستانی پرچم لہرا دیا گیا۔ باقی معاملات کو حتمی شکل دینے کی غرض سے نواب آف جونا گڑھ اپنے وفد کے ساتھ کراچی تشریف لائیں۔ ان کی غیر موجودگی میں شمش داس گاندھی نے بھارتی افواج کی جونا گڑھ پر قبصے کی راہ ہموار کی اور یوں بھارت نے پاکستان کے حصے پر ناجائز قبصہ کرلیا اور اسٹیٹ آفس کے اوپر پاکستانی پرچم اتار کرانڈین جھنڈا لہرا دیا گیا۔
نواب آف جونا گڑھ اس وقت کراچی میں موجود تھے جن کا واپس جانا ممکن نہ ہوسکا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا جس کی پیروی کرنا سیاسی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن بدقسمتی سے جب دارلحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو جونا گڑھ کیس کی پیروی نہیں کی گئی۔
دور حاضر کی بات کی جائے تو جوناگڑھ کے نواب محمد جہانگیر خانجی نے 9 نومبر 2020 بروز سوموار کو وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی کہ وہ جوناگڑھ کے لئے آواز اٹھائے جیسا کہ انہوں نے کشمیر کے معاملے میں کیا تھا اور تمام بین الاقوامی فورمز پر ریاست کو ہندوستانی قبضے سے آزاد کرنے کے معاملے کو اجاگر کریں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ریاست جونا گڑھ کو پاکستان کے قریب لانے کے لئے اسلام آباد میں جونا گڑھ کا سیکرٹریٹ قائم کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے مہاراجہ کے نام نہاد الحاق کی بنیاد پر 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ صرف 13 دن بعد، 9 نومبر 1947 کو، نواب آف جوناگڑھ کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے جواب میں، جوناگڑھ پر زبردستی قبضہ کرلیا گیا۔
"جوناگڑھ کے نواب، نے ہندوستان کے بدصورت چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ریاست ریاست جوناگڑھ کا پاکستان میں الحاق کرنا جوناگڑھ اسٹیٹ کونسل کی منظوری سے کیا گیا تھا، لیکن بھارت نے طاقت کی بنیاد پر قبصہ کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ 9 نومبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جانا چاہیے کیوں کہ اس دن 1947 میں ہندوستان نے جونا گڑھ کے علاقے پر قبضہ کیا تھا جو کہ بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے خلاف تھا۔ نواب خان جی نے کہا کہ ایک زندہ قوم کو اپنی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اسی کے مطابق کام کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا، جونا گڑھ کا رقبہ 4,000 مربع میل اور بحیرہ عرب کے ساتھ 100 میل کا ایک ساحل ہے جس میں بہت سی بندرگاہیں ہیں۔ برصغیر کی 562 سلطنتوں میں سے، جوناگڑھ چھٹی دولت مند اور ایک فلاحی ریاست تھی جس نے اپنے شہریوں کو مفت تعلیم فراہم کی اور ان سب کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری قبول کی۔
انہوں نے یاد کروایا کہ اکتوبر 1947 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران ان کے دادا نواب مہابت خان نے پاکستان سے الحاق کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس دورے کے دوران، ان کے دادا نے قائداعظم محمد علی جناح سے ایک میٹنگ کی اور ریاست کو پاکستان میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ اس معاہدے کی توثیق پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے بھی کی جب کہ اسی دوران ہندوستان نے 9 نومبر، 1947 کو اپنی فوجیں اتاری اور جونا گڑھ کے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ جب کہ قائداعظم اور ان کے دادا کا خواب تھا کہ جوناگڑھ کو پاکستان کا حصہ بننا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دادا نے کبھی بھی پاکستان میں کسی بھی جائیداد یا مالی فوائد کو مدنظر نہیں رکھا۔
نواب نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کی تشکیل کے بعد، ریاستوں کے خودمختار حکمرانوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ آزاد رہنے یا ہندوستان یا پاکستان تک رسائی حاصل کرنے کا انتخاب کریں۔ انہوں نے جوناگڑھ کی آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا۔ انہوں نے کہا، "میں آرام نہیں کروں گا اور جب تک جوناگڑھ کی آزادی کا اپنا مقصد حاصل نہیں کروں گا خاموش نہیں رہوں گا۔"
نواب نے کہا کہ جوناگڑھ پاکستان کا حصہ تھا اور اسی طرح رہے گا۔ جونا گڑھ میں ہندو اور مسلم کمیونٹیز اب بھی جونا گڑھ کے نواب سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتی ہے اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو معلوم ہونا چاہئے کہ جوناگڑھ پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے کہا کہ جوناگڑھ سے تعلق رکھنے والے 25 لاکھ افراد پاکستان میں رہتے ہیں۔
اس سے پہلے سن 2016 کے اوائل میں، جوناگڑھ کے نواب نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ریاست جوناگڑھ کو پاکستان میں ضم کردیا جائے۔ انہوں نے کہا، "بھارت کے جوناگڑھ پر قبضہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 26 کی کھلم خلاف ورزی ہے اور ریاست کو پاکستان میں ضم کردیا جانا چاہئے۔" یہ بات گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی سے ملاقات کے دوران بتائی گئی۔ اس موقع پر مسلم انسٹی ٹیوٹ کے بانی سلطان محمد علی بھی موجود تھے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت 550 سے زیادہ ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہوسکتی ہے۔ جوناگڑھ تقسیم ہند سے پہلے کی ایک ریاست تھی جس نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ پانچ اگست 2020 کو پاکستان نے پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ منظور اور جاری کیا تھا، جس میں جموں و کشمیر کے علاقے اور لداخ کا ایک حصہ شامل ہے۔ نقشہ میں پاکستان کے حصے کے طور پر ہندوستانی گجرات میں جوناگڑھ، مناوادر اور سر کریک بھی شامل تھے۔
الحاق کی دستاویز پر نواب آف جونا گڑھ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دستخط کی موجودگی اور دونو ں طرف کے عوامی نمائندوں کی رضامندی کے باوجود بھارت کا جونا گڑھ پر ناجائز قبصہ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ حکومت وقت کو پاکستان کے علاقوں کی واپسی کے لئے اپنا سیاسی قردار ادا کرنا چاہیے اور اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو اٹھانا چاہیے۔