Sachai Ghalib Aati Hai
سچائی غالب آتی ہے
میں نے سیکنڈ کلاس میں ایک واقعہ پڑھا تھا۔ کہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ گشت پر تھے اور ایک گھر کے باہر سے آہستہ آہستہ آوازیں باہر آ رہی تھی کہ ایک ماں اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی بیٹی دودھ میں پانی ڈال دو۔ بیٹی کہتی ہے اماں یہ جھوٹ ہے۔ ملاوٹ ہے اور دھوکہ دہی ہے، ماں کہتی ہے کہ بیٹا دودھ بڑھ جائے گا اور کون سا کوئی دیکھ رہا ہے۔ بیٹی جواب دیتی ہے کہ اگر کوئی نہیں دیکھ رہا تو اللہ سبحانہ تعالی تو دیکھ رہے ہیں۔میں یہ کام نہیں کر سکتی۔ میں دودھ میں ہرگز پانی نہیں ملاوں گی۔ ماں چپ کر جاتی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر بہت خوش ہو کر گھر واپس آ جاتے ہیں۔
اس کے بعد سچائی کی عظمت اور ملاوٹ کی مذمت کی جاتی ہے۔ لیکن پھر یہ واقعہ میں نے خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی بائیو گرافی میں پڑھا۔ وہ یہ سن کر بہت خوش بھی ہوئےتھے اور واپس اپنے گھر کی طرف روانہ بھی ہوئےتھے لیکن اگلے دن اپنے بیٹے حضرت عاصم رضی اللہ تعالی عنہ کا رشتہ اس گھر میں اس بچی کے لئے بھجوایا اور یوں یہ لڑکی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی بہو بنی ان کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام لیلا رحمہ اللہ رکھا گیا بعد میں ان کی شادی خلیفہ مروان کے بیٹے عبدالعزیز بن مروان سے ہوئی۔
حضرت لیلی رحمہ اللہ کہ بطن سے عالم اسلام کے عمر ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جنم لیا اور پھر دوبارہ ایک بار خلافت راشدہ کی سنہری یادوں، منصفانہ فضا اور پاکیزہ ایمانی ماحول کو واپس لوٹا دیا۔ جنہوں نے اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ کی اس پیشن گوئی کو پورا کرنا تھا کہ زیورات سے لدی پھندی اور اپنے حسن و جمال میں یکتا اکیلی عورت اپنے گھر سے باہر نکلے گی اور نہ اسے لٹنے کا ڈر ہو گا اور نہ کسی میلی آنکھ کا۔
ان کی منی مینجمنٹ کا ماڈل بھی ذرا چیک کریں بیت المال میں سارے مصرف پورے کرنے کے بعد بھی اس قدر مال و دولت، درہم و دینار اور سونا چاندی کی اس قدر فراوانی ہوگئی اور شاید پہلی اور آخری دفعہ یہ مصرف نکالا کسی بھی نوجوان کی شادی ہوگی تو حق مہر حکومت ادا کرے گی۔
پورے واقعہ کی بنیاد صرف ایک چھوٹی سی سچائی۔ بچی نے نے یہ چھوٹی سی عادت اپنائی۔ اور وہ مقام اور مرتبہ حاصل کیا جس کی عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچا جا سکتا۔ اس کے سچ نے عالم اسلام کو نشاۃ ثانیہ کا عظیم، بڑا، مثالی اور معجزاتی دور لوٹایا۔ رہتی دنیا تک تاریخ میں اس نام کی سنہری چمک اس طرح رہے گی جوہر کمزور روح، ناقص ایمان اور سیاہ دلوں کو اپنی پاکیزہ شعاعوں سے منور، مضبوط اور روشن کرے گی۔
کتا بچے پیدا کرتا ہے۔ اور پالتا ہے شیر بچے پیدا کرتا اور پرورش کرتا ہے۔ انسان بچے پیدا کرتا ہے اور تربیت کرتا ہے۔ اگر کوئی گھر کا ماحول درست کر لیتا ہے۔ تو زندگی میں ہم سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ دنیا کے تمام ہسٹری شیٹر اور گینگسٹر کے پروفائل پڑھ کر دیکھ لیں انہیں گھر کے ماحول میں بے چینی بے اطمینانی، فساداور جھگڑا ملا۔ وہ یہی سب کچھ اٹھا کر معاشرے میں لے آئے۔
بچہ ماں سے جذبات سیکھتا ہے۔ اور باپ سے رویہ سیکھ جاتا ہے۔ اس لئے ہم سب اپنی ماں کی طرح مسکراتے ہیں۔ اور معاملات میں اپنے باپ کی طرح ایکٹ کرتے ہیں۔ مثبت ماحول کس طرح جینیس بنا سکتا ہے۔ کار للزلو پولگر ماڈل پر پوری دنیا میں ریسرچ ہو رہی ہے۔ دوسرا زیادہ تر ہم اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں اور عادتوں سے بچوں کو نیگٹو ماحول اور غلط عادتوں کی طرف راغب کر لیتے ہیں۔
اگر کسی نے باہر آ کر آپ کا پوچھ لیا اور بچے نے بتا دیا کہ ابو جان گھر پر ہیں تو ہم بچے کو بعض اوقات ڈانٹتے ہیں۔ اور کئی باراسے واھیات، پاگل اور گدھا بھی کہہ دیتے ہیں۔ اب اپنے دل پر صرف ایک لمحے کے لیے ہاتھ رکھ کر یہ سوچیے کہ ہم نے اسے کیا سکھا دیا؟ ہم انتہائی چھوٹی باتوں سے بچنے کے لیے بچوں کو ایسے لائحہ عمل سکھاتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اس کی گوشمالی یا اپریسشن appreciation کرتے ہیں۔
اب بچہ مکمل طور پر سیکھ گیا کہ سچ بولنے پر ڈانٹ اور بےعزتی اور جھوٹ بولنے پر جب وہ اگلے بندے کو بتاتا ہے کہ میں نے پورا گھر چھان مارا میرا اور ابا جی گھر پر موجود نہیں ہیں۔ ہم نے اسے شاباش دی، ویری گڈ کہا اور کہا اب یہ سمجھ دار ہو گیا۔ اپریسشن بھی کی اور کئی بار اسے چاکلیٹ، کینڈی اور بسکٹ بھی دیا۔ اس شاباش اور فیڈ نے بچے کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔
اب گھر سے بچہ منافقت اور جھوٹ سیکھ کر اسکول کی دنیا میں قدم رکھتا ہے، کمزور روح جب سکول کی دنیا میں قدم رکھتی ہے تو استاد پڑھنا بتاتے ہیں۔ پڑھنا سکھاتے نہیں ہے۔ ٹیوشن اکیڈمی۔ کوچنگ کلاسز۔ اسے رٹو طوطے میں تبدیل کرتی ہیں۔ زیادہ تر استاد زندگی میں خود کامیاب نہیں ہوتے اور کوئی جا ب نہ ملنے کی وجہ سے اس شعبہ میں آجاتے ہیں۔ وہ سارا دن بچوں کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ ان کی نظر میں بیسٹ اسٹوڈنٹ وہ ہے جس نے 95 پرسنٹ نمبر لیے تھے۔ وہ نئی کلاس کو ماضی کے رٹو طوطے کی مثال دیتے رہتے ہیں اور سارا دن کلاس میں یہ دہراتے رہتے ہیں کہ آپ نے بھی اتنے ہی نمبر لینے ہیں۔
زندگی کی دوسری ریٹ ریس (rate race) یہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔ اب روح مزید کمزور ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی بچہ بھی کتاب کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ کیونکہ وہ نیگٹو ماحول کے سارے شارٹ کٹس ڈھونڈ چکا ہوتا ہے اور بالکل ہماری طرح ری ایکٹ کرتا ہے اور اپنے استادوں جیسا بن چکا ہوتا ہے۔
تیسرا جن کے والدین میں سے سے کسی کا انتقال ہو جانا آپ کو جو لوگ بھی ایموشن لیس نظر آئیں گے۔ ان میں سے 90 پرسینٹ کی زیادہ تر والدین بچپن میں فوت ہو جاتے ہے اس لیے یہ مسکرانا نہیں سیکھتے۔ جو فیلنگزز ان کو ماں سے ملنی ہے جب وہ نہیں ملتی تو یہ افرا تفری ان کی ذات کے اندر ہوتی ہے۔ معاشرے میں منتقل کرتے ہیں۔ کیونکہ جب ہم گھر سے تربیت نہیں ملتی اور ہم معاشرے میں آ جاتے ہیں تو معاشرے میں یہ چیزیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں پھر سانپ کو سانپ کو لڑے اور زہر کس کو چڑھے والی زندگی شروع ہوجاتی ہے کوئی خوش ہو کر کام نہیں کر رہا ہوتا۔ کسی محکمہ سے انصاف نہیں ہو رہا ہوتا۔
پولیس سے لے کر ہر محکمے کو ہم کو ستے ہیں۔ ٹریفک سینس سے لے کر دودھ والے تک ملاوٹ، پریشانی اور بے ایمانی ہی ملتی ہے۔ تہجد گزار حکیم بھی دوائی میں سٹیرائڈ ڈال دیتا ہے۔ اور ہم بھی کیا ظالم لوگ ہیں قرآن مجید بھی ناقص پیپر پر پرنٹ کر لیتے ہیں۔ سچائی کی کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے آپ سقراط کی بائیوگرافی پڑھ لیں۔ وہ آج بھی اپنے سچ کی وجہ سے زندہ ہے زہر کا پیالہ دیے جانے سے پہلے صرف ایک شرط تھی کے سقراط صرف جھوٹ بول دے صرف ایک بار یہ کہہ دے کہ یہ میں نے نہیں کہا۔ کسی نامعلوم بندے نے کہا ایوان اقتدار اسے بچنے کا راستہ دے رہا تھا۔ اسے اور ریاست دونوں کو پتا تھا وہ سوچنا جانتا ہے اور یہ اگر ڈٹ گیا تو یہ قیامت برپا کر دے گا۔
لوگوں کو سوچنا سکھانا اور سمجھانا شروع کر دے گا اور لوگ اس سے متاثر ہو کر اپنے فرسودہ، بیکار، زنگ آلود عقائد، متعفن اور دیمک زیادہ روایات پر سوال اٹھانا شروع کر دیں گے۔ لہذا ریاست اور اسے دونوں کو معلوم تھا۔ اس کے قتل کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے پر وہ ڈٹا رہا ایک دن پہلے اس کے سارے حواری (companions) اس زنداں کے پاس اکٹھے ہوئے اور رونے لگے۔سقراط نے پوچھا کیوں رو رہے ہو۔ کتاب میں فقرہ لکھا ہوا ہے You are going die without sin آپ بے گناہ مارے جا رہے ہیں۔
سقراط نے جیل کے اندر سے جوتا اتار کر اپنے شاگردوں کو کہا دل کرتا ہے تم اس سے مارو ں تمہارا مطلب تھا میں کسی گناہ پر مارا جاتا۔ اگر آج بھی سقراط کو ہم یاد کرتے ہیں اس کی سچائی کی وجہ سے۔ اور وہ بچپن سے ہی سچ بول رہا تھا۔
کاش ہم بھی جو صادق اور امین کی امت میں سے ہیں سچ بولنا شروع کر دیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھا دیں۔
میں ہوں اس دور کا سقراط مجھے زہر نہ دو
میں تو احساس کی تلخی ہی سے مر جاؤں گا