Aggregation of Marginal Gain
ایگرگیشن آف مارجنل گین
مریض کی حالت بہت خراب تھی، اس کی آنکھیں باہر کی طرف ابل رہی تھیں۔ ماتھے پر نسیں رسیوں کی طرح ابھر آئی تھی۔ چہرے پر سوجن اور نیلاہٹ کے آثار دکھنے لگے تھے۔ گھر والے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اس نے کہا کہ ایک لاکھ روپے لگے گا اور دس دن میں مریض ٹھیک ہو جائے گا، گھر والے اتنا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے اسے حکیم صاحب کے پاس لے آئے۔ اس نے کہا پچاس ہزار پہ لگے گا اور میں ایک ہفتے میں ٹھیک کر دوں گا۔
ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے اس لئے وہ ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس آگئے اس نے تین دنوں اور 25000 میں مریض کو ٹھیک کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے میں اس کو لے کر گھر آ گئے اور اپنے علاقے کے ایک سمجھدار بندے کو بلایا۔ اس نے مریض کی حالت کو دیکھا اور آگے بڑھ کر اس کی کی تنگ قمیض کا اوپر والا بٹن کھول دیا۔ مریض کا سانس بحال ہوگیا۔ اس نے مریض کو ٹھنڈا پانی پلایا اور پنکھا چلوادیا۔ دو منٹ کے اس علاج نے مریض کو مکمل تندرست کر دیا۔ میں ساری زندگی اس واقعہ کو فوک وزڈم کا شاہکار سمجھتا رہا۔ اور اس تکنیک کا استعمال بھی کرتا رہا۔ پھر مارچ2020 میں نے ایک کتاب پڑھی تم مجھے پتا چلا کہ اسے مارجنل گین یا ون پرسنٹ امپرومنٹ کہتے ہیں۔ سر ڈیو بریلز فو رڈ اس تکنیک کے موجد ہیں اور آپ اس تکنیک کا کارنامہ ملاحظہ کیجئے۔
برٹش سائیکلنگ ٹیم سکائی اپنے سب سے بُرے دور سے گزر رہی تھی انیس سو آٹھ سے دو ہزار تین تک سکائی ٹیم نے صرف ایک ہی گولڈمیڈل جیتا تھا۔ پرفارمنس دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اور سائیکلنگ کی کیٹیگری کی سب سے بڑے ایونٹ ریس ٹور دی فرانس میں ان کی پرفارمنس سب سے خراب تھی۔ وہ ایک بار بی ایونٹ جیت نہیں پائے تھے۔ گزشتہ کئی سالوں کی اس پرفارمنس کی وجہ سے ان پر ایک ایورج ٹیم کی چھاپ لگ گئی تھی۔
سیچویشن اتنی خراب تھی کیا یورپ کی سب سے بڑی ٹاپ مینوفیکچرنگ سائیکل کمپنی نے برٹش رائٹرز کو اپنی سائیکل دینے سے منع کر دیا تھا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر لوگوں کو پتہ چل گیا یا کہ برٹش رائیڈرز ان کی گیر استعمال کر رہے ہیں۔ تو ان کی سیل کم ہو سکتی ہے اور ریپوٹیشن بھی متاثر ہوگی۔ کہتے ہیں کہ جب برا وقت آتا ہے تو غیر ہی نہیں اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
برٹش سکائی ٹیم کی قسمت کا سکہ اس وقت پلٹا جب برٹش سائیکلنگ آرگنائزیشن نے نے ڈیوبریل فورڈ کو پرفارمنس ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات کیا۔ یہ پچھلے سب کوچز سے الگ تھے۔ یہ سٹیٹریجی بیس کوچ تھے۔ اور ان کی سٹریٹجی کا نام تھا ایگریشن آف مارجنل گین۔
ان کے مطابق اگر ہمارے کام کے ہر چھوٹے حصے کو ایک پرسنٹ بہتر طریقے سے کیا جائے تو ایٹ دا اینڈ سب حصوں کو جوڑنے پر ہم ایک نئی چیز کو دریافت کرلیں گے جس کا رزلٹ پہلے سے اعلی، شاندار اور ایکسیلنٹ ہوگا۔ اس نے اس ایوئے انسپائرنگ تکنیک کو برٹش سکائی ٹیم پر اپلائی کر دیا۔ اس نے پورے ٹریک کو تجربہ گاہ اور ساری ٹیم کو سیمپل ٹیسٹ ڈکلیئر کردیا۔
سائیکل کی سیٹ کو ری ڈیزائن کیا تاکہ اسے زیادہ کمفرٹیبل بنایا جا سکے۔ ٹائروں پر الکوحل لگایا تاکہ اس کی روڈ گرپ کو بہتر بنایا جا سکے۔ برٹش رائیڈرز کے لیے ان کے مطابق الگ الگ مساج جیلز چنے جو ان کو فاسٹ مسل ریکوری دے سکیں۔ اس ماڈل کی کامیابی کے لیے ابھی باقی اس نے ہر وہ چیز تبدیل کرنا تھی جو اس کھیل کا حصہ تھی اور بڑے سے بڑے انٹیلیجنٹ اور لیجنڈ بھی ابھی جس چیز کو سوچ نہیں سکتے تھے۔
الگ الگ فیبرک کو ونڈ ٹنل میں ٹیسٹ کیا اور آؤٹ ڈور رائیڈرکی فیبرک کو ان ڈور سوٹنگ میں تبدیل کیا کیونکہ وہ زیادہ ہلکے اور ایرو ڈائنامک تھے۔ الیکٹریکلی ہیٹڈ اوور شارٹ پہنائے جس سے رائڈنگ کے دوران جسم کا آئیڈیل درجہ حرارت بنا رہے۔ ڈیوبریل فورڈ نے نے اسپیشل تکیے اور میٹرس بنائے تاکہ سونے کی کوالٹی ساونڈ اور سلیپ لیس ہو جائے۔ اس نے ایک ڈاکٹر کو بھی ہائر کیا جس کا موٹیوتھا کھلاڑیوں کو بیسٹ ہائجین عادتیں سکھانا۔ ڈاکٹر نے انہیں ہینڈ واشنگ تکنیک سکھائیں سردی سے بچنے کا طریقہ سکھایا۔
بیسٹ ویزے بلٹی کے لئے آنکھوں میں بہترین آئی ڈراپس ڈالے۔ ڈیو بریل فورڈ نے ٹریک کے اندر کے کلر کو بھی سفید کر دیا تا کہ ڈسٹ کے معمولی سے دھبے کو بھی دیکھا جا سکے اور وہ اڑ کر سائیکل میں نہ جا سکے۔ سائیکل کی چین میں ڈالنے والے آئل تک سر نیو بریل فورڈ نے ری ڈیزائن کر دیا۔ ہر چیز میں ون پرسنٹ امپرومنٹ کی کوشش کی جو بھی سائیکل، ٹیم یا ٹریک سے متعلقہ تھی۔ جب یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اپلائی کر دیا گیا تو نتائج توقع سے بھی زیادہ شاندار اور تیز نکلے۔
سب سے پہلا کمال سکائی ٹیم نے بیجنگ اولمپکس دو ہزار آٹھ میں دکھایا انہوں نے سکسٹی پرسنٹ گولڈ میڈل اپنے نام کیے۔
چار سال بعد یعنی 2012 لندن اولمپکس میں سکائی ٹیم نے اپنے لیول کو مزید بڑھاتے نو اولمپک اور سات ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیے۔ اور رہی بات ٹور دی فرانس کی بریڈلی ویگنس پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے ٹور ڈی فرانس 2012 جیتی۔ دوسری دفعہ کرس فاومی نے یہ ریس 2103 جیتی اور 2015، 2016، 2017 میں بھی یہی کھلاڑی مسلسل جیتتا ریا۔ یعنی چھ سال میں انہوں نے پانچ دفعہ ٹور دی فرانس ریس جیتی۔
اگر ان کے سارے میڈلز کا حساب 2007 سے 2017 تک لگایا جائے تو 178 ورلڈ چیمپئن شپس اولمپک اور پیرا اولمپک میں 66 میڈلز اور پانچ ٹور ڈی فرانس جیت کر انہوں نے پوری دنیا میں اپنی الگ پہچان بنائی۔ اس عام سی ٹیم پر مجھے ایمی ورک کا پنجابی گانا یاد آجاتا ہے۔ قسمت بدلدی ویکھی میں، جگ بدلدا ویکھیا، میں بدل دے ویکھے اپنے، میں رب بدل دا ویکھا ہے، سب کچھ بدل گیا میرا۔
ان کا نام نہ صرف تاریخ میں لکھا گیا بلکہ سائیکلنگ کی دنیا میں بھی یہ سب سے سنہرا دور مانا جاتا ہے، ہم اکثر چھوٹی چیزوں پر فوکس نہیں کرتے کیونکہ ان کا اثر بڑے لیول پر فوری طور پر نہیں دکھتا۔ اور جہاں ہمیں بہتری نہیں دکھتی ہم اتنی جلدی اس چیز کو کیوٹ کر دیتے ہیں۔
اس سے پہلے میں کبھی ایک پرسنٹ کو تو نوٹس نہیں کرتا تھا لیکن پھر جب یہ میں نے پڑھا تو مجھے پتا چلا کہ لونگ رن میں میں کمپاؤنڈ ایفکٹ کی طرح یہ مؤثر نتائج دے کر مکمل کایاپلٹ کر سکتا ہے۔ یعنی ہم روز ایک پرسنٹ امپرومنٹ بھی کریں ایک سال بعد یہ 365 پرسنٹ ہو جائے۔ اور ہمیں یہ صرف سو پرسنٹ چاہیے ہوتی ہے۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں بہت سے لوگ ملتے ہیں جن کا دین صرف کلمہ تک محدود ہوتا ہے اور شریعت کو فالو نہیں کر سکتے، معیشت اور گھریلو مجبوریاں انہیں کولہو کا بیل بنا کر رکھتی ہیں لیکن دوسری طرف لوگوں کو تکلیف نہیں پہنچاتے، دھوکا نہیں دیتے ظلم اور زیادتی نہیں کرتے اور وہ دعوی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم اس لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی برکت سے ہی بخشے جائیں گے۔ ذہن میں کئی بار ان کا یقین دیکھ کر بھی شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتا ہے۔ مارجنل گین کا شکریہ جس نے یہ کنفیوژن ہمیشہ کے لئے دور کر دی۔ صرف صفائی ہی نصف ایمان ہوتا ہےاور جنت جانے کے لیے ایک پرسنٹ ایمان ہی کافی ہوتا ہے۔
راستے کھلے ہیں اب ہماری مرضی انہیں پالیں یا بھٹک جائیں۔