Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamid Ateeq Sarwar
  4. Maeeshat Chalane Mein Hukumat Ka Kirdar (1)

Maeeshat Chalane Mein Hukumat Ka Kirdar (1)

معیشت چلانے میں حکومت کا کردار (1)

کسی ملک کی معاشی حیثیت جاننے کا پیمانہ عمومی طور پر مجموعی قومی پیداوار ہوتا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار، ملک میں سال کے دوران بنائی جانے والی قابل استعمال اشیاء اور خدمات کی قیمت سے متعین کی جاتی ہے۔ جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار میں صرف بیس سے پچیس فیصد حصہ حکومت کی اشیاء یا خدمات کی خریداری پر مبنی ہوتا ہے۔ فوج، سرکاری ملازمین اور سرکاری کمپنیوں کی تنخواہ، پینشن، دفاتر کے اخراجات، ترقیاتی کاموں کا خرچ، دفاعی اور پولیس ضروریات پر خرچ وغیرہ اور سود کی ادائیگی اس کا حصہ ہیں۔

حکومت یہ اخراجات ٹیکس یا قرض وصول کرکے دیتی ہے۔ بیرونی قرض کے علاوہ یہ سب بھی لوگوں کی آمدن، خرچ یا بچت ہی سے آتا ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ لوگوں کے خود خرچ کرنے کی بجائے حکومت ان سے ٹیکس یا قرض لے کر یہ خرچ کر رہی ہوتی ہے۔ برطانوی معیشت دان ڈیوڈ رکارڈو کے مطابق بیرونی قرض بھی ایک قسم کا لوگوں سے مستقبل میں وصول کئے جانے والے ٹیکس کی ایک صورت ہے۔ اگر ایسا ہے تو معیشت کا کلی دارومدار اس ملک میں لوگوں یا کمپنیوں کی اشیاء یا خدمات کی پیداوار پر منحصر ہے۔ غور سے دیکھیں تو کمپنیاں بھی نام کی کاروباری ہیں اور ان میں سرمایہ اور محنت تو بالآخر افراد ہی کا ہوتا ہے۔

اگر یہ بات مان لی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مجموعی قومی پیداوار دراصل ملک میں لوگوں کے سرمایہ اور محنت کا شاخسانہ ہے اور حکومت شاید ہی براہ راست اس میں اضافہ کر سکتی ہو۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ملکی معیشت اس میں موجود لوگوں کا سرمایہ اور محنت چلاتی ہے نہ کہ وزیرِ خزانہ یا سرکاری اہلکار۔ اگر ایسا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کا معیشت کو سنوارنے یا بگاڑنے میں کیا کردار ہے؟ اور برے معاشی حالات کی ذمہ داری حکومت پر کیوں ڈالی جاتی ہے؟ اور سب لوگ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ حکومت کچھ کرے گی تو ہی خوشحالی آئے گی؟

یہاں تک کہ ملکوں کی اچھی معاشی کارکردگی میں حکومت ہی سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت نام کی اس شے کا تاریخی ارتقاء لوگوں کی معاشی ضروریات وغیرہ سے نہیں ہوا تھا۔ حکومت ہمیشہ سے طاقت کے حصول اور اس میں بڑھوتری کا ایک نظام ہوا کرتی تھی۔ زور آور آدمی یا طبقہ دوسرے انسانوں اور علاقوں پر قبضہ کرکے ایک سماجی نظام مرتب کرتا تھا جس کی اصل مبادیات اختیار اور وسائل پر مقتدر طبقے یا قوم کی اجارہ داری قائم کرنا تھا۔ بادشاہ کی لوگوں کی بھلائی، انصاف وغیرہ میں دلچسپی کی زیادہ تر وجہ بدامنی کی صورت میں اقتدار کو خطرہ تھی۔

تاریخی معیشت میں بھی اشیاء اور خدمات کی پیداوار رزق کی متلاشی خلق خدا کیا کرتی تھی اور بادشاہ اس اناج، مال مویشی، سونا چاندی، کپڑے، جواہرات، اور دیگر اشیاء اور خدمات کے حاصل میں سے ایک بڑا حصہ خراج کے طور پر وصول کرتے یا جنگ میں لوٹ لیا کرتے تھے۔ ایمانیات یا عظمت کے زیر اثر کچھ غربا اور مساکین کی امداد بھی ہو جایا کرتی تھی مگر اس کا دائرہ کار زیادہ تر خاصا مختصر اور نسلی یا مذہبی تعصب پر مبنی تھا۔

علاؤالدین خلیجی کی فوجیں برصغیر کے کسانوں کی فصلوں کا اسی فیصد اٹھا کر لے جاتے اور کم و بیش یہی صورت تمام زمانوں میں جاری و ساری رہی۔ شاید ہی کسی تاریخ میں بادشاہوں کو فیکٹریوں، جولاہوں، لوہاروں، تاجروں کے کاروبار کی افزائش میں حصہ لیتے دیکھا گیا ہے۔ بہت بھی کچھ ہوتا تو بادشاہ یا امراء اپنے لئے بنائے گئے لباس، جواہر، محل، مسجد یا مقبرے کے لئے کچھ انعام و اکرام عطا کر دیا کرتے تھے۔ ٹیکس، خراج، لوٹ مار اور قبضے کی بانٹ عمومی طور پر بادشاہ، امراء، فوجی سالاروں اور مذہبی اجارہ داروں کے درمیان رہتی تھی۔

آج بھی حکومت اپنے تاریخی رول میں موجود ہے اور اپنے اسی تاریخی تناظر میں اپنے شہریوں سے اپنے جاہ و جلال اور اقتدار کے دوام کے لئے پیسوں کی متقاضی رہتی ہے جو ٹیکسوں اور قرضوں کی شکل میں ان کاموں کے لئے حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ اس تاریخی رول کے علاوہ بھی امن و امان، عدل و انصاف اور دفاعی، جنگی اقدامات کے لیے اخراجات اپنی معاشی توجیہہ (economic rationale) بھی رکھتے ہیں جس کا ذکر بعد میں بھی ہوگا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ ہر پانچ سال بعد حکومت کے تاریخی رول پر اخراجات کو کم از کم سطح پر رکھا جا سکے۔

ان تمام باتوں کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ اول معیشت چلانے کی بنیادی آکائی ملک کے لوگ ہوتے ہیں نہ کہ حکومت اور دوسرے یہ کہ حکومتوں پر ڈالی گئی معاشی ذمہ داریاں ذیادہ تر پچھلے دو سو سال کی پیداوار ہیں اور ہمارے خطے میں اصلاََ یہ ذمہ داری شاید تقسیم کے بعد آئی ہے کہ انگریز کی حکومت کا بنیادی مقصد یہاں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا تھا اور ان کی زراعت یا انفراسٹرکچر میں بہتری کی تمام کوششیں ان کی جنگی ضروریات یا اقتدار میں دوام کے لئے حکومتی نظم کے لئے تھیں۔ لوگوں کے کاروبار اور فیکٹریوں میں ان کی دلچسپی صرف ٹیکسوں یا برطانوی کارخانوں کے لئے سستے خام مال میں تھی۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت کچھ نہیں کرتی تو لوگ پھر بھی کام کیوں کرتے ہیں اور سرمایہ کیوں لگاتے ہیں؟ تو اس کا جواب جدید معاشیات کے بابا آدم ایڈم سمتھ دے چکے کہ انسانی نفسیات میں چھپی ذاتی خواہشات اس عمل کا بنیادی محرک ہیں۔ یہ خواہشات جہد للبقاء سے آسائش و آرام کے حصول سے ہوتے ہوئے جاہ و ثروت کے حصول اور آئندہ نسلوں کی مالی نگہداشت تک جاتی ہیں۔ ہر چند کہ مذہبی حوالوں سے اس میں قناعت اور ناداروں کے خیال کی ذمہ داری بھی منظر نامے پہ ابھرتی ہے مگر شکاگو سکول والے اسے بھی اخروی زندگی کی بہتری کے لئے سرمایہ کاری کی ذاتی خواہش قرار دے دیتے ہیں۔

بات پھر وہیں پر آ جاتی ہے کہ معیشت سے حکومت کا کیا لینا دینا۔ کلاسیکل اکنامکس والے حکومت کے معیشت میں عمل دخل کو بس وہیں جائز سمجھتے تھے جہاں مارکیٹ کچھ اشیاء یا ضروریات کی درکار مقدار فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اس صورتحال کو مارکیٹ فیلیئر (market failure) کہا گیا کہ جہاں ذاتی اور اجتماعی خواہشات آپس میں ہم آہنگ نہیں رہتیں۔

اس کے ساتھ ساتھ 1930 کی دہائی کی گریٹ ڈپریشن نے جان مینارڈ کینز کے دماغ میں مندی کو درست کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے خرچ اور ٹیکسوں میں کمی اور بیشی کا نظریہ دیا جو فسکل پالیسی (Fiscal policy) کے ہتھیار کے طور پر سامنے آیا جس کا عملی ثبوت دوسری جنگ عظیم کے بعد مارشل پلان کے ذریعے مغربی یورپ کی معاشی بحالی کی صورت میں ہی آ گیا تھا۔ بعد ازاں کلاسک سکول والوں نے ملٹن فریڈمین کی سرکردگی میں یہی حل مرکزی بینک کی مالیاتی پالیسی سے بھی نکال لیا۔

نوے کی دہائی میں معاشی ترقی میں اداروں کے کردار نے بات پکڑی (پراپرٹی رائٹش، نزاع کے تصفیہ کے ادارے)۔ کچھ باتیں کاروبار کے لئے سازگار ماحول، اور سیاسی استحکام کی بھی ہوئی اور سیاسی فیصلوں میں عوام کی شرکت کی بھی۔ ان طویل باتوں میں یہ بات طے ہے کہ معیشت چلانا لوگوں کا کام ہے (صبح چھ بجے گھر کے دروازے پر دس کلومیٹر دور سے آیا دودھ، کسی ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر نہیں آتا)۔ حکومت کا معیشت میں کردار صرف تین طرز کا ہے۔

اول: کاروبار کے لئے سازگار ماحول جس میں امن، حفاظت، انصاف، سیاسی استحکام، انفراسٹرکچر، لوگوں کی فیصلہ سازی میں شرکت شامل ہے۔

دوم: فسکل، مالیاتی اور ایکسچینج ریٹ پالیسی سے میکرو اکنامک اشاریوں کو قابل برداشت حد میں رکھنا۔

سوم: مارکیٹ فیلیئرز کی درستگی کا ادارہ جاتی بندوبست۔

اس کے علاوہ حکومت کی معیشت میں ہر دخل اندازی عمومی طور پر قومی پیداوار کو بڑھانے کی بجائے گھٹاتی ہے۔ اور کاروبار کی حکومت سے دیگر امیدیں محض اس کی extractive power سے آئے ہوئے مال غنیمت سے اپنا حصہ مانگنا ہے۔ سو اگر ہم نے کبھی ترقی کی تو اس کی وجہ لوگوں کے سرمایہ لگانے سے اور کام کرنا ہوگی نہ کہ سرکاری اصلاحات۔ یہ ضرور ہے کہ اصلاحات اگر مندرجہ بالا تین دائروں میں ہوں تو کاروبار اور بھی زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ اور ان دائروں سے باہر حکومت کی ہر دخل اندازی اور کنٹرول معیشت کے لئے زیادہ تر نقصان دہ ہوتا ہے۔

سرکار کے ان تین دائروں میں کام کی مناسب صورت کا تجزیہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔

(جاری)

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq