Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (9)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (9)
ہر چند کہ ہمارے حکمران صحافت کی نظر سے مغل بادشاہوں سے دکھتے ہیں اور ان کے بارے مجموعی تاثر ہمیں ان کا موازنہ بےحد طاقتور مطلق العنان حکمرانوں سے کرنے پر مجبور کرتا ہے مگر پاکستان میں حکمرانی کم از کم موجودہ دور میں بڑی حد تک ہمارے اجتماعی نظام کی ایک ٹوٹی پھوٹی صورت ہے۔ بہت سے فیصلے اور ان کے اثرات جن کی ذمہ داری عموماََ وزرائے اعظم یا وزرائے اعلیٰ پر ڈالی جاتی ہے ایک بے ہنگم سی فیصلہ سازی کے ذریعے انجام پاتے ہیں جس میں بہت زیادہ Active initiative ہمارے حکمرانوں کی جانب سے نہیں آ رہا ہوتا۔
وفاقی حکومت کو ہی لے لیجئے جو بلاشبہ کسی بھی صوبائی حکومت کی نسبت کئی گنا، زیادہ منظم اور اہل سمجھی جا سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کا کام ڈویژنز میں بانٹا گیا ہے (سمجھ لیجے کے کوئی پچاس کے قریب ڈویژن ہیں ) ہر ڈویژن کا انتظامی انچارج ایک وفاقی سیکرٹری ہوتا ہے۔ اور ہر ڈویژن کا یا ایک سے زیادہ ڈویژن کا سیاسی انچارج ایک وفاقی وزیر، مشیر ہوتا ہے۔ بسا اوقات کچھ ڈویژن وزیراعظم کی زیر وزارت رہتے ہیں جہاں کا انصرام کسی مشیر، وزیر مملکت یا وزیراعظم کے معاون خصوصی کے پاس ہوتا ہے۔ 1973 کے رولز آف بزنس کے تحت، وفاقی حکومت کا تمام تر کام ڈویژنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حکومت کے تمام تر فیصلے کابینہ کرتی ہے جن میں یہ فیصلہ بھی شامل ہے کہ بہت سے روزمرہ کی فیصلہ سازی کے کام کابینہ کی ماتحت ڈویژنز میں کسی سیکرٹری یا اس سے نیچے کسی بھی افسر کو تفویض کر دئیے جائیں۔ پاکستان کی کابینہ میں فیصلے کثرت رائے کی بجائے وزیراعظم کی حتمی رائے پر کئے جاتے ہیں اور عمومی طور پر طویل بحث کے بعد ہونے والے فیصلوں پر بھی وزراء دستخط کر دیتے ہیں کہ کسی شخص کا وزیر یا مشیر ہونا، وزیراعظم کی صوابدید پر منحصر ہے اور وزیراعظم سے اعلانیہ اختلاف رائے بہر صورت کابینہ سے رخصتی کی صورت نکلتا ہے۔
کابینہ کے سامنے رکھے جانے والے معاملے سمریوں کی شکل میں وفاقی سیکرٹری اپنے وزیر کی منظوری سے سامنے لاتا ہے۔ پیچیدہ معاملات میں وزیراعظم کی بنائی گئی وزرا کی کمیٹیاں اجتماعی طور پر ان سمریوں کی ابتدائی جانچ کابینہ کے اجلاس میں لانے سے پہلے کرکے لاتی ہیں اور کابینہ زیادہ تر معاملات میں ان کمیٹیوں کی سفارشات کو مان لیتی ہے۔ ان کمیٹیوں میں سب سے اہم وزیر خزانہ کے تحت ای سی سی ہے جو تمام معاشی اقدامات اور اخراجات کی منظوری دیتی ہے۔
مگر اس طرح کی بہت سی اور کمیٹیاں بھی ہیں جو کسی نہ کسی وزیر انچارج کے تحت ہوتی ہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے برعکس بقیہ کمیٹیوں میں اختلاف رائے سے معاملات واپس بھیج دئے جاتے ہیں۔ بڑے ترقیاتی اخراجات وزیر خزانہ کے تحت ایکنک سے منظور ہوتے ہیں اور اس سے کم پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی سربراہی میں سی ڈی ڈبلیو پی، اور سب سے کم حد کے اخراجات وفاقی سیکرٹری انچارج کے تحت ڈی ڈبلیو، پی سے ہوتے ہیں۔
یہ نظم بجائے خود نیچے سے اوپر، اوپر سے نیچے یا درمیان سے اوپر فیصلہ سازی کی راہ کھولتا ہے۔ بار بار ہونے والے فیصلوں (سرکاری اداروں میں مخصوص تقرریاں، گندم، چینی، کھاد کی امپورٹ وغیرہ) عموماََ سیکرٹری کے ماتحت نظم سے شروع ہوتی ہیں۔ پالیسی سازی کے فیصلے عموماََ انٹرسٹ گروپ کے وزیر یا وزیراعظم سے رابطے سے شروع ہوتے ہیں اور حکمران پارٹی کے منشور یا عوام میں مقبولیت برقرار رکھنے سے متعلق معاملات وزیراعظم یا ان کے قریبی سیاسی لوگوں کے initiative پر شروع ہوتے ہیں۔ تمام صورتوں میں ان کاموں کی سمری وفاقی سیکرٹری یا اس کا ماتحت عملہ بناتا ہے جو کمیٹیوں اور کابینہ کی منظوری کے بعد قانون (یا اس کے بل) یا فیصلے پر منتج ہوتا ہے۔
اس تمام عمل میں bottom up فیصلہ سازی صرف سٹیٹس کو برقرار رکھتی ہے جس میں ماضی میں تسلسل سے کئی جانے والے حکومتی فیصلے بھی شامل ہیں جیسے کھاد کے کارخانوں کو دی جانے والی اضافی گیس، یوٹیلیٹی سٹور پر دی جانے والی سبسڈی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ فیصلے عمومی طور پر ماضی کے اقدامات کا تسلسل برقرار رکھتے ہیں لیکن ان سے کسی انقلابی تبدیلی کی توقع نہیں کا جا سکتی۔ بلکہ اس نظم میں ماضی کے کم سوچ سمجھ کر کئے گئے کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کی طاقت بھی بہت محدود ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی پالیسی امداد یا آئی ایم ایف کی شرائط کی پابندی کے لئے بھی یہی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ مملکت کے کاروبار کے زیادہ تر فیصلے اسی نظم کے تحت، انجام پاتے ہیں مگر کوئی بھی حکومت اس فیصلہ سازی میں استعداد کار بڑھانے یا اہم محکموں میں اچھی ٹیم فارمیشن پر خاص توجہ نہیں دیتی اور ہر وزارت تقریباََ ایک سے تین افسران کی عقل و دانش (یا اس کے برعکس) پر منحصر رہتی ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک فیصلے vested interest کے وزراء یا وزیراعظم کو اپروچ کرنے سے ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں وسائل کی حد درجہ کمی کے باعث وزرائے اعظم بڑی حد ڈلیور نہ کر سکنے کی فرسٹریش میں مبتلا ہوتے ہیں وہاں سبز باغ دکھانے والے یہ crony capitalist یا ان کے کام کروانے والے ایجنٹ حکومت بننے کے چھ ماہ کے اندر ہر وزیراعظم کے اردگرد، پائے جانے لگتے ہیں اور ساتھ ساتھ اہم وزرا اور پہلے سے تعینات شدہ افسران (جس کے محرکات کی طرف بعد میں آتے ہیں ) کے ساتھ repeat interactions کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ان لوگوں کے pay rolls پر بہت سے ریٹائرڈ مگر، اپنے وقت کے مؤثر سرکاری افسران بھی ہوتے ہیں اور پالیسی کے سپیشلسٹ بھی۔ ان لوگوں کے پاس ان پالیسیوں کی حکومت کو sell کرنے کا ہنر بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ یہ افراد وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو وہ بیانیہ بھی بنا کر دیتے ہیں جس، سے وہ یہ فیصلے عوام اور خواص میں sell کر سکیں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وزیراعظم، وزراء یا افسران ان لوگوں سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں یا کرپشن کرتے ہیں۔
اس elite capture کی سب سے بڑی وجہ پالیسی کے میدان میں حکومتی نظم میں ویژن اور عملدرآمد کی صلاحیتوں کا فقدان اور حکومت کی مختصر اور متزلزل مدت میں کچھ کر جانے کی خواہش ہوتی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں چند افراد یا طبقات بہت فائدہ اٹھاتے ہیں مگر ملک کی عمومی ترقی اور عوام کی حالت پر اس کے زیادہ تر اثرات منفی ہی ہوتے ہیں۔ تیسری طرح کے فیصلے وزیراعظم کے قریبی سیاسی گروہ سے شروع ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ مخلصانہ طور پر الیکشن کے وعدوں پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور بعض کے نزدیک اس ساری exercise کا مطلب ذاتی تشہیر اور نمایاں ہونے کی خواہش ہوتی ہے۔
ان لوگوں کو اپنے حلقے کے لوگوں یا پارٹی کے ووٹر کو مطمئن کرنے کے لئے کسی طرح کا ادارہ جاتی بندوبست کرنا پڑتا ہے جس کا سیکرٹیریٹ زیادہ تر وزیراعظم کے دفتر کے ماتحت ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو مکمل ادارہ جاتی سپورٹ، رولز آف بزنس میں کسی ایک جگہ پر locate نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل رہتی ہے اور، وزیراعظم کی مسلسل اور مکمل سپورٹ کے بغیر یہ فیصلہ سازی عموماََ بہت سی اچھی یا بری Noise تو create کرتی ہے مگر عوامی معیار زندگی میں بہتری لانے میں بہت زیادہ مؤثر نہیں ہوتی۔
محکموں کے لئے افسروں کا انتخاب بھی وزیراعظم کے اعتماد کے ایک یا دو افسران کے انتخاب سے ہوتا ہے جہاں استعداد کار کے ساتھ بسا اوقات loyalty کے معیار، پر بھی پرکھ ہوتی ہے۔ بیوروکریسی کی subsequent تعیناتی ان قریبی افسروں کے اعتماد والے افسروں سے شروع ہوتی ہے۔ کچھ افسران براہ راست وزراء کے ساتھ پہلے کام کرنے کی بنیاد پر اور معدودے چند اپنی ماضی کی شہرت یا کارکردگی کی بنیاد پر جگہ پاتے ہیں۔
اس نظم کا تقاضا ہے کہ بالا بیوروکریسی میں وہ لوگ جگہ پا سکتے ہیں جو یا تو سیاسی اثر رکھنے والے لیڈ بیوروکریٹس کی good books میں ہوں یا سیاسی اشرافیہ سے ماضی میں قریبی انٹریکشن میں رہے ہوں۔ اس طریقہ کار میں قریب تمام افسر پی اے ایس گروپ سے ہی آتے ہیں جو ماضی میں ڈپٹی کمشنر سے صوبائی سیکرٹری تک بار بار، سیاسی اشرافیہ کے contact میں آتے ہیں۔ یہ نظام اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دیتا کہ آپ کے چنے ہوئے سیکرٹری یا ان کی ٹیم بیوروکریسی کے بہترین دماغوں اور استعداد کار والے لوگوں پر مشتمل ہوگی۔
اس بندوبست کے ساتھ حکومت، حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی لانے سے یکسر قاصر ہوتی ہے۔ قریب میں دیکھیں تو بھارت کا موجودہ معاشی انقلاب من موہن سنگھ اور ان کی پچاس لوگوں کی ٹیم کی مرہون منٹ ہے جس نے پہلے 1991 میں معاشی اصلاحات کا آغاز کیا اور پھر سن 2004 سے 2014 میں بھارت کو معاشی سپر پاور بنانے کی راہ پر ڈال دیا۔ مودی گو کانگریس کی حکومت کے خلاف جیت آیا تھا مگر اس کی پچھلے نو سال کی کامیابی درحقیقت من موہن سنگھ کی ٹیم اور پالیسیوں کی سمت کا تسلسل ہے۔
اگر مودی، کانگریس کی معاشی اصلاحات کو کنگھالنا اور اپنی طرز نو کو نبھانے کے لئے لمبی چوڑی اکھاڑ پچھاڑ کرتا تو آج بھارت معاشی میدان میں عالمی طاقت ہونے کی بجائے اسی کی دہائی کا مرد بیمار ہوتا۔ یہ کامیابی اتفاقیہ نہیں اور اس میں بھارت کے nerve Centre یعنی مدبر، سیاستدانوں، ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریسی سے عمدہ انتخاب کی کارکردگی ہے۔
اب اس تصویر کو اکٹھا کرکے غور سے دیکھیں تو آپ کو، معروف معیشت دان عاطف میاں کی دو دن پہلے کی ٹویٹ یاد آئے گی کہ
Pakistan's nervous system is fundamentally broken-that combination of administrative and political structures that guarantee a certain level of confidence in the economy
The country must begin to build a functioning nervous system. somehow
اچھے فیصلے کرنے اور برے فیصلوں سے بچنے کی واحد، صورت مدبر سیاستدانوں (Across political divide)، کام سمجھنے والے دانشوروں اور ان کاموں کے لئے بیوروکریسی سے درست اور بہترین انتخاب ہے۔ وگرنہ موجودہ طریقہ کار میں لیڈر اور پارٹی تو کجا، فرشتے اور اولیاء بھی کچھ تبدیل کرنے سے قاصر رہیں گے۔