Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (7)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ(7)
چارہ گری سے گریز۔
قیامت کا سا سماں ہے۔ جسے دیکھو نفسا نفسی میں پاکستان کے مستقبل کے بارے ہیجان میں مبتلا ہے۔ کبھی افواہ اڑتی ہے کہ حکومت کے پاس تنخواہ کے پیسے بھی نہیں۔ کبھی یہ کہ سرکار بینکوں میں پڑے پیسے ضبط کر لے گی۔ کبھی سونے کو خرید کر کے سیف میں رکھنے کی وبا تو کبھی بلیک مارکیٹ سے ڈالر کی خرید کا مرض۔ زیادہ مایوس اور محتاط لوگ تو گھر میں سال بھر کا راشن بھی ڈالنے کی فکر میں ہیں۔
اس پر مستزاد ہمارے سیاستدانوں، صحافیوں اور "معاشی ماہرین" نے وہ ہاہا کار مچائی ہے کہ الامان الحفیظ۔ پہلے مہینہ بھر اس بات پر غلغلہ مچتا ہے کہ ڈالر کی قیمت کم رکھنے سے معیشت ڈوبنے والی ہے۔ جب ڈالر کو کھلا چھوڑا جاتا ہے تو اس بات پر تبرا ہوتا ہے کہ مہنگائی اور قرض بڑھ گیا۔ ہم میں سے اکثریت کا یہ گمان ہے کہ ملکی معیشت وزارت خزانہ کے چھٹے فلور پر بیٹھا کوئی Wizard of Oz چلا رہا ہے۔ مہنگائی، ڈالر، ریٹ، بجلی، گیس، علاج، تعلیم تمام کے تمام اسی کے بس کی باتیں ہیں اور ہماری زندگیوں کی تمام تر مشکلات کا باعث صرف اور صرف حکومتی بدنیتی یا نالائقی ہے۔
اگرچہ کچھ حوالوں سے اس بات میں کچھ صداقت ضرور ہوگی مگر اپنے حالات کی ابتری اور اس کے بعد اس میں ممکنہ بہتری کی مکمل ذمہ داری حکومت پر ڈال دینا کوئی بہت عقل مندی کی بات نہیں۔ معیشت میں حکومتوں کی کارفرمائی اور اثر اندازی اگر اسی صورت کی ہوتی تو دنیا کے ہر ملک میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری، بیماری ختم ہو سکتی تھی۔
ایسا نہ ہو سکنے کی زیادہ تر وجہ حکومتی بدنیتی اور نالائقی سے بڑھ کر اس ملک میں موجود قدرتی وسائل، انسانی حرفت کا معیار، پیداواری مشینری اور ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے۔ ان پیداواری ذرائع سے آمدن کی فراہمی بنیادی طور پر نجی شعبے اور افراد کی ذاتی محنت اور ذمہ داری سے ممکن ہوتی ہے اور حکومت کی معیشت میں بہت زیادہ دراندازی عموماََ کم ترقی اور معاشی بدحالی کے اسی منطقی انجام کو پہنچتی ہے جو سوویت یونین، سرد جنگ کے مشرقی یورپ، 1990 سے پہلے کے بھارت اور 70 کی دہائی کے پاکستان کا ہوا۔
سمجھنے والوں کی سہولت کے لئے یہ یاد رہے کہ قومی معیشت میں حکومت کی دخل اندازی ایک محدود قسم کے فیصلوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ کل ملا کر حکومت کے بس میں بینکوں کے سود کی شرح (روپے کی گردشی مقدار)، ٹیکسوں کی وصولی اور ان کی شرح میں کمی بیشی، بین الاقوامی اور ملکی سطح پر سود پر قرض لینا اور ٹیکس اور قرض سے وصول شدہ رقم کو ترقیاتی، سرکاری، دفاعی، کاروباری اور عوامی مفاد کے لئے خرچ کرنا ہے۔
سو لے دے کر حکومت قرض لے کر، نوٹ چھاپ کر یا ٹیکس لے کر قومی خزانہ بھرتی ہے اور پھر انہی پیسوں کو ملکی دفاع، قرض کی ادائیگی، سرکاری تنخواہوں و اخراجات، عوام کو دی گئی سبسڈی، صحت، تعلیم، غریبوں کی امداد، سڑکوں اور دوسرے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی کاموں پر خرچ کر دیتی ہے۔ حکومت اگر ادائیگی نوٹ چھاپ کر دے تو اشیا کی قیمت، روپے کی قدر گرنے سے بڑھ جاتی ہے اور اس کا زیادہ تر بوجھ فکسڈ آمدن والے لوگوں پر پڑتا ہے جیسے تنخواہ دار طبقہ۔ وسیع البنیاد ٹیکس عمومی طور پر کم مہنگائی لاتے ہیں اور قرض کے پیسہ مشہور برطانوی ماہر معاشیات ڈیوڈ رکارڈو کے بقول وہ ٹیکس ہے جو آپ کی آئندہ نسل نے عمومی ٹیکسوں کے علاوہ دینا ہوتا ہے۔
اگر غور کریں تو حکومتی وسائل کے تینوں طریقے غیر فطری ہیں اور اگر ہمارے اجتماعی نظم کے لئے حکومت کی ضرورت نہ ہوتی تو شاید معیشت حکومت کے نہ ہوتے ہوئے زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی۔ مگر کچھ معاملات میں مثلاََ سڑک، دفاع کی فراہمی میں مارکیٹ کی ناکامی اور اجتماعی نظم کے لئے حکومت ہونے کی مجبوری کی وجہ سے ہمیں اس بوجھ کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ حکومت کا جواز باامر مجبوری ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا اس مجبوری کے تحت لی جانے والی اس دوا کو امرت دھارا کیوں سمجھا جائے۔ کیوں یہ فرض کیا جائے کہ ہر مرض اور خرابی کا علاج اسی حکومت نام کی چیز نے کرنا ہے۔ اب اسی توقع کو سیاست کے ساتھ جوڑ دیں تو وہ زہر وجود میں آتا ہے جو ملکی معیشت اور اس کے مستقبل کی جڑوں تک اتر جاتا ہے۔
ہر سیاستدان یہی دعویٰ کرتا ہے کہ ہم مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ کریں گے۔ ڈالر کو نیچے لائیں گے۔ روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم اور ترقی دیں گے۔ قرض سے نجات دلائیں گے اور ملک کو جنت بنائیں گے۔ اور حکومت میں آنے کے بعد یہی دعوے، گلے کا پھندا بن جاتے ہیں کہ معیشت میں کہیں بھی لامتناہی ذرائع نہیں ہوتے اور ایک معاشی اشاریہ دوسرے سے یوں منسلک ہے کہ دونوں چیزیں بیک وقت ممکن ہی نہیں۔ مثلاََ مشہور فلپس curve رشتے کے مطابق حکومت ایک وقت میں یا مہنگائی پر قابو پا سکتی ہے یا روزگار کی فراہمی یقینی بنا سکتی ہے۔
گویا مہنگائی قابو کرے گی تو بے روزگاری بے قابو۔ یہی صورت اس کی بالعکس صورت میں بھی ہے۔ زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے سے بسا اوقات معاشی نمو کم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ معاشیات کوئی فزکس یا کیمسٹری نہیں کہ ہر صورت ایک تعامل کا ایک ہی نتیجہ نکلے۔ یہ تو خود ایک سوشل سائینس ہے جس میں ایک جیسے اقدامات کا کہیں اچھا نتیجہ نکلتا اور کہیں برا کہ ہر وقت اور خطے کے معروضی حالات ایک دوسرے لوگوں کی شکلوں کی طرح مختلف ہوتے ہیں۔
ملک کے نازک حالات ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس تکلیف کی زیادہ تر وجہ ہماری حکومت، حکومتی ادارے اور ان کی وہ مخلصانہ کوششیں ہوتی ہیں جس میں وہ اپنے تئیں عوام کو تکلیف سے بچانے کے لئے سعی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشی غلام ملک میں تو ویسے ہی کسی معاشی بڑھک مارنے کا کوئی فائدہ اس لئے بھی نہیں کہ جب تک آپ غیر ملکی قرض کے گرداب میں ہیں۔
آپ کے پاس اپنی معیشت کو اسی طریقے سے چلانا ہے جس میں آپ کو قرض دینے والے ادارے اور ممالک اپنے دئیے گئے قرض کی بروقت واپسی کے لئے محفوظ گردانتے ہیں۔ حکومت پی ٹی آئی کی ہو، مسلم لیگ، پیپلزپارٹی یا فوج کی، لا محالہ ہماری معاشی پالیسی کے خدوخال چند محدود اقدامات کے علاوہ اسی نسخے پر چلنے ہیں جس کی کامیابی پر ہمیں قرض دینے والوں کا ایمان ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں صالحین اور فرشتوں کی حکومت ہو تو بھی اور بے ایمانوں، لٹیروں کی حکومت ہو تو بھی معاشی رستہ ایک ہی شاہراہ سے ہو کر جانا ہے جس کے چیدہ اور چنیدہ نکات صرف نو ہیں۔
1۔ ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ
2۔ سرکاری اخراجات میں کمی
3۔ مزید قرضوں سے حتی الامکان اجتناب
4۔ بجلی، گیس کی قیمتوں میں وہ اضافہ جس سے موجودہ قیمت خرید اور گردشی قرضے کے بقایا جات ادا ہو سکیں
5۔ سرکاری کمپنیوں کی نجی شعبے کو فروخت اور سرکاری اداروں میں غیرضروری ملازمتوں کا بتدریج خاتمہ
6۔ سرکاری پینشن کے بوجھ کا کوئی قابل عمل کاروباری حل
7۔ ڈالر کی قیمت مارکیٹ کے مطابق
8۔ غیر ضروری نوٹ چھاپنے سے پرہیز اور ایک ذمہ دارانہ مالیاتی پالیسی جس سے معیشت کو اور ہیٹ ہونے سے روکا جائے۔
9۔ برآمدات میں اس طرح اضافہ کہ جس سے درآمدات پر بہت زیادہ رکاوٹیں نہ ہوں (کہ اس سے قرض دینے والوں کی مارکیٹ access میں فرق پڑتا ہے)۔
ان نو نکات کا منطقی نتیجہ اگلے کئی سال کے لئے درج ذیل اثرات لائے گا۔
1۔ معیشت کی شرح نمو قریب تین سے چار فی صد تک رہے گی جس سے بڑی مشکل سے موجودہ معیار زندگی ہی برقرار رکھا جا سکے گا۔
2۔ حکومت نوکریاں دینے کی بجائے شاید بہت سارے لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کر رہی ہوگی۔
3۔ مہنگائی کی شرح ہماری خریداری کی باسکٹ میں موجود درآمدی حصے سے منسلک رہے گی (یاد رہے کہ ہمارے چاول، آٹا اور چینی میں بھی درآمدی ڈی اے پی اور درآمدی گیس سے بنائی گئی یوریا کھاد، جراثیم کش ادویات، بیج اور زرعی آلات شامل ہیں)۔
سو اگر مہنگائی، روزگار کے کم مواقع اور مزید ٹیکس ہی ہمارا مستقبل ہیں تو یہ آسائش کے خواب دکھانے والے حکومت میں آکر اسی طرح شرمندہ رہیں گے جیسے موجودہ اور گزشتہ حکومت رہی۔ اپنے لئے خود سے متعین کئے ہوئے اس سیاسی دباؤ کے تحت ہر آنے والی ہر حکومت ان unavoidable فیصلوں پر پہلے لیت و لعل سے کام لے کر ان اقدامات کے درد کو بڑھائے گی، پھر ان اقدامات کا درد اور اس کے بعد جاتے جاتے مقبولیت حاصل کرنے کے لئے غیر ذمہ دارانہ خرچ اور ریلیف جس کا نتیجہ مزید درد اور تکلیف کی شب غم جس پر مرزا نوشہ بھی تڑپ کر کہیں کہ
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا۔
اگر ہمارے قائدین ان بلند بانگ دعوؤں کی بجائے لوگوں کو سچ بتانا شروع کر دیں اور آنے والی تکلیف یا کم آسائش کو تمام طبقوں میں ایسے تقسیم کریں کہ ہر طبقے کا درد اس کی برداشت کے اندر رہے تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔ ایسا کرنے سے نہ لوگ سونا ذخیرہ کریں گے اور نہ ڈالر لے کر بھاگیں گے۔ لوگوں سے سچ بولیں کہ مشکلات کے وقت کو مل جل کر کاٹنا ہے۔
قوم کو زمین کی خرید و فروخت سے نکال کر ان اشیا اور خدمات کی پیداوار پر لگانا ہے جس سے وہ زرمبادلہ ملے جس سے بین الاقوامی قرض کو اس مقدار تک لایا جا سکے جہاں اس قرض کے استعمال سے ہونے والی آمدنی، اصل زر اور سود کی واپسی سے زیادہ ہو۔ لوگوں سے قربانی مانگنے سے پہلے اپنی اور مقتدر طبقے کی دی گئی قربانی کا عملی مظاہرہ کریں اور اس معکوس ترقی کے سفر کا رخ بدلیں۔ ویت نام، بنگلہ دیش اور بھارت اگر پندرہ سال میں معاشی turnaround کر سکتے ہیں تو ہمارے لئے بھی یہ غیر ممکن نہیں۔ مگر یہ سب کچھ سچ بولنے سے ہوگا، جھوٹی تسلیوں اور وعدوں سے نہیں۔
لوں دام بخت، خفتہ سے یک خواب، خوش دلے
غالب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں۔